0
Monday 18 Nov 2013 15:44

مسنگ پرسنز اور لواحقین کی کوششیں!

مسنگ پرسنز اور لواحقین کی کوششیں!

اگر آپ کو قومی ذرائع ابلاغ نے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے گذشتہ روز کراچی کی طرف شروع ہونے والے ایک لانگ مارچ کے بارے میں صیح معنوں میں آگاہ نہیں کیا ہے تو اس پر خفا ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کیوں کہ یہ لانگ مارچ ڈرون حملوں کے خلاف ہے اور نہ ہی کسی جج کی بحالی کے لئے۔ ہمارے ہاں تو صرف طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حق ہی میں لانگ مارچ ہوتے ہیں۔ کوئٹہ سے لاپتہ افراد کے خاندانوں پر مشتمل تنظیم’’ وائس فار مسنگ پرسنز‘‘ کے زیر اہتمام شروع ہونے والی لانگ مارچ اس لئے بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ یہ صوبے میں ڈاکٹر مالک کی قیادت میں قائم ہونے والی نئی حکومت کے دور میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا مظاہرہ ہے۔ جس سے یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ لاپتہ افراد کے رشتہ دار کس طرح اپنے عزیزوں سے دوبارہ ملنے کو بےتاب ہیں۔ بلوچستان میں سیاسی کارکنان اور عام شہریوں کی گمشدگی کا سلسلہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں شروع ہوا، لیکن ان کے بعد اب دو نئی حکومتوں کے آنے کے باوجود اسلام آباد کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور لاپتہ افراد کے رشتہ دار خفیہ اداروں اور ایف سی پر ان غیر قانونی کارروائیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں۔

دوسری طرف حکومت بدستور ہٹ دھرمی کا شکار ہے اور بار بار اس بات پر بضد ہے کہ لاپتہ افراد کی اصل تعداد کے بارے میں قوم پرست مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہیں۔ جب کہ ہمارا خیال ہے کہ لاپتہ افراد کی تعداد جتنی بھی ہو یہ بات اہم نہیں ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جتنے بھی لوگ حکومتی تحویل میں ہیں انہیں لاپتہ کرنے کا کوئی قانونی جواز نہیں بنتا اور ایسا کرکے حکومت شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کر رہی ہے۔ لاپتہ افراد کے حوالے سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کردار قابل ستائش ہے کہ انہوں نے اس معاملے میں ذاتی دلچسپی لی اور اس پر کئی مقدمات کی سماعت بھی کی۔ ان کی دلچسپی سے صرف یہ فائدہ ہوا کہ اس معاملے پر باقاعدگی سے ذرائع ابلاغ میں کچھ خبریں آنے لگیں۔ اس کے علاوہ ان کی مداخلت کا کوئی فائدہ ہوا اور نہ ہی خفیہ ادارے اپنی غیر قانونی کارروائیوں سے باز آئے۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ ہر نئی حکومت کے ساتھ سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں ہزاروں لوگوں کو لاپتہ کیا گیا لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں تو سینکڑوں افراد کی مسخ شدہ لاشیں تک منظر ِ عام پر آنے لگیں۔ نون لیگ کی حکومت بھی اس پالیسی کا سدباب نہیں کر سکی اگرچہ بلوچستان حکومت کے ترجمان جان بلیدی اس بات پر بضد ہیں کہ مسخ شدہ لاشوں کی تعداد میں ان کی حکومت آنے کے بعد کمی آئی ہے۔

دراصل نئی حکومت کے دور میں زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کی لاشیں اب کراچی سے بھی ملنا شروع ہو گئی ہیں اور حکومت اس ضمن میں بالکل بےیار و مددگار بنی ہوئی ہے۔ چند دنوں پہلے کراچی پریس کلب میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعلٰی ڈاکٹر مالک نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کی حکومت لاپتہ افراد کا معاملہ سلجھانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے جبکہ اس کے فوری بعد انہوں نے ’’ایکسپریس ٹربیون ‘‘کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان کی حکومت نے تو اپنی طرف سے اعتماد سازی کے سارے اقدامات اٹھائے ہیں اور اب بال بلوچ مزاحمت کاروں کے کورٹ میں ہے۔ وزیراعلٰی بلوچستان کی باتوں اور پاکستان کی کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کی بلوچستان پر مبنی رپورٹوں میں یہی تو ایک بنیادی مسئلہ ہے کہ وہ لاپتہ افراد کے معاملے اور مزاحمت کاروں کی تحریک کو ایک آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ حالاںکہ یہ سرے ہی سے دو مختلف معاملات ہیں، جن کی وجوہات اور حل بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ لاپتہ افراد میں سے چند ایک کا تعلق سیاسی جماعتوں سے ہو سکتا ہے لیکن ان کی ایک بڑی اکثریت کا وابستگی مسلح تنظیموں سے ہے اور نہ ہی وہ سیاسی سوچ رکھتے ہیں۔

مثال کے طور پر وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز کے چئیرمین نصراللہ بلوچ کے چچا علی اصغر بنگلزئی جو کہ گیارہ سال قبل کوئٹہ کے سریاب روڑ سے لاپتہ ہوئے تھے کوئی سیاسی کارکن نہیں تھے بلکہ وہ تو پیشے کے اعتبار سے ایک درزی تھے۔ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ لاپتہ افراد کا تعلق بلوچستان کی آزادی کی تحریک سے ہے تو وہ غلطی پر ہے اور اگر وہ یہ سمجھتی ہے کہ تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کے ساتھ ہی آزادی کی تحریک مکمل طو پر ختم ہو جائے گی تو تب بھی حکومت کی سوچ غلط ہے کیوںکہ آزادی پسند جنگجو تو پہاڑوں پر حکومتی فورسز سے نبرد آزما ہیں اور ان کے سرگرم مسلح کارکنوں کو لاپتہ کرنا اگر ناممکن نہیں تو آسان بھی نہیں ہے۔ جو لوگ لاپتہ کئے گئے ہیں ان میں سے بیشتر غیر مسلح، کچھ سیاسی اور زیادہ تر غیر سیاسی سوچ رکھنے والے عام شہری تھے۔ جو بھی ہو، حکومت کے امتیازی سلوک اور غلط پالیسوں کا یہ اثر ہوا ہے جن گھرانوں میں سیاسی سوچ رکھنے والے افراد نہیں تھے تو وہاں مسخ شدہ لاشیں ملنے کے بعد اب بچے بھی حکومت اور ریاست سے اپنی نفرت اور بیزاری کا اظہار کرنے لگے ہیں۔

لاپتہ افراد کے رشتہ دار اس سے پہلے بھی ایک ہزار دن تک کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگا چکے ہیں۔ اب پتہ نہیں کہ انہوں نے اپنی حکمت عملی میں کیا تبدیلی لائی ہے۔ جس کی بنیاد پر یہ توقع کی جائے کہ یہ لانگ مارچ حکومت کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کرے گی اور وہ تمام لاپتہ افراد کو رہا کرے گی۔ حکومت کی بےحسی اپنی جگہ پر لیکن انصاف کے حصول کے لئے وائس فار مسنگ پرسنز کی پرامن جدوجہد قابل تحسین ہے۔ اس طرح کے مظاہرے اور لانگ مارچ اس لئے بھی لازمی ہیں کہ حکومت کو یہ سمجھ نہ لے کر لاپتہ افراد کے خاندان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے عزیروں کو فراموش کردیں گے اور حکومت سے انصاف کی طلب چھوڑ دیں گے۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کی تحریک انسانی حقوق کی تاریخ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔

خبر کا کوڈ : 322110
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش