2
0
Monday 18 Nov 2013 18:41

شاہراہ قراقرم پر حالات کشیدہ، تکفریوں کے مختلف مقامات پر اجتماعات اور فتنہ انگیز نعرے

شاہراہ قراقرم پر حالات کشیدہ، تکفریوں کے مختلف مقامات پر اجتماعات اور فتنہ انگیز نعرے
روز عاشور راجہ بازار راولپنڈی میں پیش آنے والے افسوسناک واقعات کو فرقہ واریت کا رنگ دیکر دیامر اور کوہستان کے عوام شاہراہ قراقرم پر نکل آئے ہیں اور شاہراہ کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ شاہراہ قراقرم کے مختلف مقامات جس میں بٹگرام، چلاس اور کوہستان وغیرہ شامل ہیں، میں متعدد مقامات پر سانحہ راجہ بازار راولپنڈی کے ردعمل کے طور پر شاہراہ قراقرم پر اجتماعات کا سلسلہ جاری ہے۔ بٹگرام میں ایک جم غفیر نے شاہراہ قراقرم پر جمع ہو کر فرقہ وارانہ نعرے لگائے۔ اس موقع پر بٹگرام کے تکفیری ملاوں نے خطاب کرتے ہوئے شیعہ مکتب فکر کے خلاف شدید ہرزہ سرائی کی۔ انہوں نے عاشورا کے جلوس اور  12 ربیع الاول کے جلوس نکالنے والوں کو بھی دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا۔ بٹگرام کے علاوہ کوہستان اور چلاس میں بھی اجتماعات ہوئے جہاں تکفیری دہشت گردوں نے کلاشنکوف لہراتے ہوئے فرقہ وارانہ اور اشتعال انگیز نعرے لگائے جبکہ  چلاس کے ایک دو مقامات پر تکفیریوں نے سانحہ چلاس و کوہستان کی تکرار کا عزم بھی کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ان تمام ہنگامہ آرائیوں کے موقع پر انتظامیہ اور حکومت خاموش تماشائی کا کردار نبھاتی رہی ہے۔ 

ان فتنہ انگیز اجتماعات کے بعد علاقہ میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور شاہراہ قراقرم پر حالات سنگینی کی طرف جا رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق گلگت میں کسی بھی قسم کے ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لیے سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے۔ گلگت میں بھی تکفیری گروہ کے چند افراد کا ائیرپورٹ روڈ پر اجتماع ہوا جو چند تکفیری نعروں کے بعد ختم کر دیا گیا جبکہ بلتستان جہاں اہل تشیع کی بھاری اکثریت ہے علاقہ بھر میں امن اور امان ہے۔ البتہ بلتستان کے امن و امان کا انحصار شاہراہ قراقرم سے مربوط ہے۔ خدانخواستہ اگر سابقہ سانحات کی تکرار ہوتی ہے تو بلتستان میں بھی امن تہہ و بالا ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں بلتستان کے عوام بھی تشویش میں مبتلا ہیں۔ شاہراہ قراقرم پر کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لیے اور شاہراہ کو محفوظ بنانے کے لیے پاکستان آرمی کو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان علاقوں سے ردعمل کا احتمال بھی موجود ہے کیونکہ یہ وہ علاقے ہیں جو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ دیامر، کوہستان اور چلاس کے متعدد مقامات بالخصوص کارگہ نالے میں دہشت گردوں کی تربیت گاہیں موجود ہیں، جہاں گرمیوں میں دہشت گردی کی باقاعدہ ٹریننگ ہوتی ہے۔ یہ تمام علاقے پاکستان کا حصہ بالخصوص کوہستان صوبہ خیبر پختونخواہ کا علاقہ ہونے کے باوجود افغانستان کا نقشہ پیش کر رہا ہوتا ہے اور یہاں ریاست کے اندر ریاست قائم ہے۔ یہاں اسلحوں کی کھلے عام نمائش اور قتل و غارت پر کوئی روک ٹوک نہیں اور تو اور پاکستان آرمی کے افسران کے قتل کے بعد بھی علاقہ میں نہ کرفیو نافذ کیا جا سکتا ہے اور نہ کلین اپ آپریشن۔ ضرورت اس امر کہ ہے کہ کوئی بھی افسوسناک واقعہ پیش آنے سے قبل ان کی روک تھام کے لیے کام کریں ورنہ گلگت بلتستان جیسا حساس ترین علاقہ جہاں امریکی خفیہ تنظییمیں سرگرم عمل ہیں اس بات کا متحمل نہیں کہ مزید جنازے اٹھائے۔
خبر کا کوڈ : 322194
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
لگتا ہے پھر سانحہ چلاس وقوع پذیر ہوگا
Pakistan
GB ky kitne logon ko mardo gay abhi tk baltistan me aman he agr yahan kharab ho jae to bhot kuch hoga ...
ہماری پیشکش