0
Wednesday 20 Nov 2013 00:31

بلوچستان، بجلی کے منصوبوں میں جان بوجھ کر تاخیر

بلوچستان، بجلی کے منصوبوں میں جان بوجھ کر تاخیر

گذشتہ دنوں وزیراعلٰی بلوچستان کو واپڈا کے حکام نے بلوچستان کے بجلی کے منصوبوں پر اسلام آباد میں بریفنگ دی، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ ایک آدھ منصوبے اگلے سال مکمل ہو جائیں گے۔ ان میں ڈیرہ غازی خان، بارکھان، لورالائی کی ٹرانسمیشن کے جلد مکمل ہونے کی توقع ہے۔ چشمہ، ڈیرہ اسماعیل خان اور ژوب ٹرانسمیشن لائن سے متعلق معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کی تکمیل اگلے دس سالوں میں نظر نہیں آتی۔ اسی طرح زیادہ اہم ترین منصوبہ دادو، خضدار پاور ٹرانسمیشن لائن ہے جو گذشتہ بیس سالوں سے تکمیل کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ اس کے بھی جلد مکمل ہونے کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ کراچی سے لسبیلہ کو بجلی فراہم کی جاتی ہے، مکران کو ایران سے بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ مکران میں دو پاور ہاؤس ایک پنجگور اور دوسرا پسنی میں تباہ کر دئیے گئے۔ ان میں گندہ، ملاوٹ شدہ اور اسمگل شدہ تیل استعمال کیا گیا اور ان کو حکومت نے اپنے کارندوں کے ذریعے تباہ کیا۔ باقی بلوچستان کو نیشنل گرڈ گدو تھرمل پاور ہاؤس سے بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ بلوچستان کے تین بڑے پاور ہاؤس، اوچ پاور، حبیب اللہ کوسٹل اور حبکو براہ راست بجلی نیشنل گرڈ کو فروخت کرتی ہیں۔ نیشنل گرڈ سے بلوچستان کی ضرورت کے مطابق 1500 میگاواٹ بجلی فراہم نہیں کی جارہی ہے۔

یہ سپلائی چار سو اور پانچ سو میگاواٹ کے درمیان رہتی ہے جس کے لئے لوڈشیڈنگ لازمی ہو جاتی ہے۔ پنجاب کی حکومت نے وفاق کی مشاورت سے کوئلہ سے چلنے والے چھ بجلی گھر گڈانی میں تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ماہرین معاشیات کا اعتراض ہے کہ یہ بجلی گھر فضا میں آلودگی بلوچستان میں چھوڑ دیں گے۔ بجلی اور منافع دونوں پنجاب کے حصے میں آئیں گے۔ پہلے سے موجود تین پاور پلانٹس سے بلوچستان کو بجلی نہیں مل رہی ہے۔ اس کی کیا گارنٹی ہے کہ کوئلہ سے چلنے والے چھ بجلی گھروں سے صوبے کی بجلی کی ضرورت پوری ہو گی۔ ہم نے ان کالموں میں بار بار یہ مطالبہ کیا ہے کہ دادو، خضدار ٹرانسمیشن لائن جلد سے جلد مکمل کی جائے تاکہ وسطی بلوچستان کی بجلی کی ضروریات پوری ہوں۔ دوسری جانب حکومت ایران کی جانب سے یہ پیش کش گذشتہ بیس سالوں سے موجود ہے کہ ایران بیس ہزار میگاواٹ بجلی فروخت کرنے کو تیار ہے۔ ایران میں آج کل بجلی کی پیدا وار 124000 میگاواٹ ہے۔ اس میں سے آسانی سے بیس ہزار میگا واٹ بجلی پاکستان کو فروخت کی جا سکتی ہے۔ حکومت پاکستان نے جان بوجھ کر زاہدان، کوئٹہ ٹرانسمیشن لائن کا بنیادی ڈھانچہ تعمیر نہیں کیا کیونکہ معدنی دولت سے مالا مال چاغی اور خاران میں صنعتی انقلاب آ جائے گا۔

چاغی اور خاران میں زیرزمین پانی کے وسائل وافر ہیں۔ جن کو استعمال میں لایا جائے تو زرعی انقلاب بھی آ سکتا ہے۔ شاید ان وجوہات کی بناء پر کہ پاور ٹرانسمیشن لائن چاغی، خاران اور نوشکی سے گزرے گا تو ان علاقوں کی قسمت بدل سکتی ہے۔ اس لئے حکومت پاکستان نے پاور ٹرانسمیشن لائن کا بنیادی ڈھانچہ تعمیر ہی نہیں کیا تاکہ ایران سے بجلی خریدنے کا کوئی جواز نہ ہو۔ بلوچستان کو غریب اور پسماندہ رکھنا ہے تو بجلی اور شاہراہوں کی تعمیر کے منصوبوں پر عمل نہ کرو۔ روزگار کے مواقع پیدا مت ہونے دیں۔ اس لئے دادو، خضدار ٹرانسمیشن لائن گذشتہ ربع صدی میں تعمیر نہ ہو سکا، نہ ہی ایران سے بجلی خریدی جائے گی ۔ گڈانی سے 6000 میگاواٹ بجلی پنجاب کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرے گا۔ آواران اور مکران کے دوسرے حصوں سے گرڈ کے ذریعے بجلی نہیں ملے گی۔

خبر کا کوڈ : 322634
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش