0
Tuesday 3 Dec 2013 20:59

گلگت، برطرف سرکاری اساتذہ کا احتجاجی دھرنا

گلگت، برطرف سرکاری اساتذہ کا احتجاجی دھرنا
رپورٹ: ایس ٹی ایم کاظمی

گلگت اتحاد چوک میں پیر کے روز 10 بجے سے183 برطرف اساتذہ احتجاجی کیمپ لگا کر اپنے مطالبات کے حل کیلئے احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں، شہر کے وسط اور معروف و مصروف شاہراہ بلاک ہونے کی وجہ سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے، احتجاجی مظاہرے میں متاثرہ مرد اساتذہ کے علاوہ بڑی تعداد میں خواتین بھی شامل ہیں، میڈیا سے گفتگو کے دوران مظاہرین نے مطالبات کے حل تک دن رات احتجاج کرنے کے فیصلہ کا اعلان کیا، شہر کی جانی پہچانی سیاسی و سماجی شخصیات بھی دن بھر متاثرہ اساتذہ سے اظہار یکجہتی کرتی ہوئی نظر آئیں۔ اساتذہ کے مطالبات کے حل کیلئے صوبائی حکومت اور ذمہ دار افراد کے خلاف مسلسل تقریریں ہو رہی ہیں ہر کوئی اپنے جوش خطابت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آ رہا ہے، متاثرہ اساتذہ کسی کی بھی زبان سے اپنے حق میں دو بول سن کر بھرپور داد دینے لگ جاتے ہیں، خواتین کی موجودگی کی وجہ سے انتظامیہ مظاہرین کے سامنے مکمل بےبس نظر آ رہی ہے، کیونکہ خواتین کے ساتھ کسی بھی قسم کی ناانصافی کو یہاں کے عوام کسی صورت برداشت نہیں کرینگے۔

93 اساتذہ اور 90 ٹیکنیکل سٹاف کو حال ہی میں محکمہ تعلیم گلگت بلتستان تحقیقاتی کمیٹی کی سفارشات پر غیر قانونی بھرتی ہونے کا الزام لگا کر برطرف کیا گیا ہے، یہ مسئلہ گذشتہ ایک سال سے چل رہا تھا، کبھی ان اساتذہ کو برطرف کیا جاتا رہا کبھی بحال جس کی وجہ سے انکا مستقبل داو پر لگ گیا، کرپشن، سفارش اور میرٹ کی پامالی کرنے والی کالی بھیڑیں جنہوں نے اپنی جیبیں گرم کرنے کیلئے سادہ لوح عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جس کی پاداش میں آج ہماری بہنیں سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں، وہ بڑے مزے سے منظر عام سے غائب ہو چکے ہیں، کیا اپنے حق کیلئے سراپا احتجاج یہ خواتین اور حضرات اس جرم کی سزا کاٹیں جس جرم کی ڈور کہیں اور جا کر ملتی ہے؟ تصویر کا دوسرا رخ گلگت بلتستان کی تاریخ پر ایک بدنما داغ کی طرح ہے، میڈیا نے محکمہ تعلیم میں موجود کالی بھیڑوں کے بارے میں کئی بار سنسنی خیز انکشافات بھی کئے تب بھی کسی کے سر پر جوں نہیں رینگی، اور جب ایکشن لینے کا وقت آیا تو اساتذہ کو برطرف کیا گیا، ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ پہلے ان کرپٹ عناصر کو عبرت ناک سزا دی جاتی جو ان غیر قانونی بھرتیوں کے اصل ذمہ دار ہیں، لیکن ایسا نہیں ہوا اس لئے کہ، ان 183 اساتذہ کو لیکر صوبائی حکومت اور انتظامیہ کے مابین ایک بہت بڑی خلیج پہلے سے پیدا ہو چکی ہے۔
 
تحقیقاتی کمیٹی نے ان کرپٹ عناصر کی نشاندہی کر کے 4 نکاتی سفارشات وزیراعلٰی گلگت بلتستان کو بھجوائی تھیں لیکن وزیراعلٰی صاحب نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا، ان سفارشات میں محکمہ تعلیم میں موجود کرپٹ افسران کو جبری ریٹائر کرنے، معطل کرنے، پوسٹنگ کرنے اور ایک درجہ کم کرنے کی سفارش کی گئی تھی، اگر کرپٹ افسران کے خلاف ایکشن ہوتا یا انہیں قانون کی گرفت میں لایا جاتا تو اس مافیا کو بےنقاب کیا جا سکتا تھا جو اس سارے کھیل میں بلواسطہ یا بلا واسطہ شامل رہا ہے، لیکن وزیراعلٰی صاحب کی طرف سے دستخط کرنے سے انکار کی وجہ سے یہ اہم کام رک گیا، صوبائی حکومت اور انتظامیہ کے مابین اختیارات کی کھینچا تانی میں نقصان عوام کا ہو رہا ہے، اگر کوئی کام انتظامی سربراہ اچھا کرتے ہیں تو صوبائی حکومت کو حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے، خیر جہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہو وہاں ایسے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں۔

183 افراد کی برطرفی کا فیصلہ غلط ہے یا درست یہ ایک لمبی بحث ہے، اس احتجاج کی وجہ سے متاثرہ اساتذہ کو کوئی فائدہ ملے گا یا نہیں اسکا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا، لیکن اس مسئلے کا ایک حل ضرور ہے، کیونکہ صوبائی انتظامیہ اپنا فیصلہ واپس لینے میں مشکلات کا شکار ہے اس لئے مذاکرات بار بار ناکام ہو رہے ہیں، انتظامیہ کو چاہیئے کہ وہ ایک ایسی کمیٹی تشکیل دے جو ان برطرف اساتذہ کے کوائف کی چھان بین کرے جن کے کوائف پورے ہوں انہیں بحال کیا جائے، بہت سارے اساتذہ میرٹ پر بھی بھرتی ہوئے ہیں لیکن گندم کے ساتھ گیہوں کے مصداق وہ بھی برطرف ہو گئے ہیں، دوسرا حل یہ ہے کہ محکمہ تعلیم کے ان کرپٹ افسران کو جبری ریٹائر کیا جائے جو اس جرم میں شامل ہیں اور انکی پنشن ضبط کر کے متاثرہ اساتذہ میں تقسیم کی جائے تاکہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
خبر کا کوڈ : 327098
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش