1
0
Thursday 5 Dec 2013 23:51
او ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو کی تفصیلی رپورٹ

جنیوا معاہدے نے یونی پولر عالمی نظام کے تصور کو باطل کر دیا ہے، سید حسن نصراللہ

جنیوا معاہدے نے یونی پولر عالمی نظام کے تصور کو باطل کر دیا ہے، سید حسن نصراللہ
اسلام ٹائمز- فارس نیوز ایجنسی کے مطابق حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے ایک عیسائی ٹی وی چینل OTV کو تفصیلی انٹرویو دیتے ہوئے اس بات پر تاکید کی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان جنیوا میں جوہری پروگرام سے متعلق طے پانے والا معاہدہ خطے سے جنگ کے بادل چھٹنے کا باعث بنا ہے۔ اسی طرح اس معاہدے نے ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے دنیا پر یونی پولر عالمی نظام مسلط کئے جانے کی کوششیں غیرمعقول اور بے اثر ہیں اور آج کی دنیا یونی پولر ورلڈ آرڈر کو تسلیم نہیں کرتی۔ 
 
ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان طے پانے والا جنیوا معاہدہ درحقیقت خطے کی اقوام کی فتح ہے:
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے اپنے اس انٹرویو میں ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق حال ہی میں طے پانے والے جنیوا معاہدے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے کا سب سے زیادہ فائدہ خطے کی اقوام کو پہنچے گا کیونکہ خطے میں موجود شیطانی قوتیں گذشتہ کئی سالوں سے خطے میں ایک نئی جنگ کے آغاز کی کوششوں میں مصروف تھیں اور وہ امریکہ کو ایران کے خلاف محاذ آرائی پر اکسا رہی تھیں۔ البتہ ایران کے خلاف فوجی کاروائی کوئی آسان کام نہیں کیونکہ ایران ایک کمزور یا گوشہ گیر ملک نہیں اور اگر خدانخواستہ ایسی جنگ انجام پا جاتی تو خطے کیلئے اس کے انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہوتے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ایران اور 6 عالمی طاقتوں کے درمیان جنیوا معاہدے کے انعقاد نے بعض جدید بین الاقوامی حقائق کی بنیاد رکھ دی ہے جن میں سے ایک حقیقت یہ ہے کہ دنیا پر ایک قطبی عالمی نظام کا نفاذ ممکن نہیں۔ اس معاہدے نے دنیا پر ایک ملک کی حکمرانی کا تصور باطل کر ڈالا ہے۔ جنیوا معاہدے کی برکت سے دنیا ملٹی پولر نظام کی طرف گامزن ہو چکی ہے جو دنیا کو عالمی آمریت سے بچانے میں پہلا قدم ہے اور یہ تیسری دنیا کے ممالک کیلئے ایک سنہری موقع ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے واضح کیا کہ اس معاہدے کی برکت سے خطے اور عالمی سطح پر امریکی پالیسیوں میں انتہائی بنیادی تبدیلیاں معرض وجود میں آئی ہیں۔ البتہ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان انجام پانے والا یہ معاہدہ مرحلہ وار ہے لیکن بعض افراد انتہائی جلدبازی سے کام لیتے ہوئے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ یہ معاہدہ درحقیقت ولی فقیہ اور شیطان کے درمیان سمجھوتہ ہے۔ 
 
مغربی دنیا کیوں ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئی؟ 
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ عراق اور افغانستان میں امریکہ بہت بری طرح شکست اور ناکامی کا شکار ہو چکا ہے جس کی وجہ سے وہ اور اس کی پالیسیاں بند گلی کا شکار ہو چکی ہیں۔ اسی طرح لبنان اور غزہ میں بھی نیو مڈل ایسٹ کا پراجیکٹ پوری طرح فلاپ ہو چکا ہے اور اب تو انہیں شام میں بھی مکمل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دوسری طرف اسلامی جمہوریہ ایران نے گذشتہ 30 سالوں کے دوران امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی جانب سے لگائی گئی ظالمانہ اقتصادی پابندیوں کے خلاف بے مثال ثابت قدمی اور استقامت کا مظاہرہ کیا ہے جس کی وجہ سے عالمی استعماری قوتیں اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اسی طرح خود امریکہ اور یورپی ممالک شدید اقتصادی بحران کا شکار ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ امریکہ اب جنگوں سے بری طرح تھک چکا ہے اور کسی نئی جنگ کا آغاز کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ لہذا یہ سب عوامل باعث بنے کہ امریکہ اور مغربی ممالک ایران کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔ 
 
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جنیوا ایٹمی معاہدے کے انتہائی مثبت اثرات ظاہر ہوں گے۔ اس کا پہلا اثر یہ ہے کہ خطہ ایک نئی جنگ کے خطرے سے باہر نکل چکا ہے۔ ایران کے خلاف بھی امریکہ کی جانب سے کسی قسم کی فوجی کاروائی کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ البتہ میں پورے یقین سے نہیں کہ سکتا کہ اسرائیل امریکہ کو اعتماد میں لئے بغیر ایران کے خلاف کسی احمقانہ حرکت کا مرتکب نہیں ہو سکتا اور اس کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ نہیں بنا سکتا کیونکہ اسرائیلی حکام کسی منطق کے تابع نہیں اور بغیر سوچے سمجھے احمقانہ حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ امریکی حکام ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کے دوران بعض نئے موضوعات بھی زیربحث لانا چاہتے تھے لیکن ایران کا مطالبہ تھا کہ پہلے جوہری پروگرام سے متعلق مسائل حل ہونے چاہئیں۔ ایرانی حکام چاہتے ہیں کہ سمجھوتہ صرف ایران کے جوہری پروگرام تک محدود رہے۔ 
 
اسرائیل کے بارے میں ایران کا موقف اٹل اور ناقابل تغیر ہے:
سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان نے کہا کہ ایران نے ہمیشہ سے واضح طور پر اس بات کا اعلان کیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ ہمارے اختلافات اور مسائل کی نوعیت اسرائیل کے ساتھ مسائل سے مختلف ہے۔ اسرائیل کے مقابلے میں ایران کا موقف اٹل ہے اور کبھی بھی اس میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔ لیکن امریکہ کے بارے میں ایران کا موقف یہ ہے کہ اگر امریکی حکام ہمارے حقوق کا احترام کرے اور خطے کی دوسری اقوام کے مسلمہ حقوق کو بھی تسلیم کر لے تا اس کے ساتھ مذاکرات انجام پا سکتے ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی سیاست میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں لیکن ایران اپنی پرانی پالیسیوں پر ڈٹا ہوا ہے۔ البتہ ابھی ایران اور امریکہ کے تعلقات کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا کیونکہ ایران اور امریکہ کے درمیان بے شمار اختلافات اور مسائل موجود ہیں جن کے بارے میں گفتگو اور مذاکرات انجام پانے کی ضرورت ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بہتری کا وقت نزدیک آ چکا ہے۔ 
 
سعودی عرب نے ایران کے خلاف انتہائی منفی رویہ اختیار کر رکھا ہے:
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے کبھی بھی اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو ختم نہیں کیا بلکہ اصل مسئلہ سعودی عرب کی جانب سے ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ کی جانب سے انجام پانے والے اقدامات درحقیقت ایران کی پالیسیوں کا حصہ ہیں، وہ سعودی عرب کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ مغربی طاقتوں سے انجام پانے والا معاہدہ ہر گز ان کے خلاف نہیں ہے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ایران گذشتہ کئی سالوں سے سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے لیکن ایران کی یہ تمام کوششیں بے نتیجہ رہی ہیں کیونکہ سعودی عرب نے اپنے تمام دروازے بند کر رکھے ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان نے بھی ثالثی کی کوشش کی لیکن سعودی عرب نے انہیں بھی قبول نہ کیا۔ سعودی عرب کے سابق وزیر داخلہ امیر نائف کی وفات سے قبل ایران کے وزیر انٹیلی جنس نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور ان سے ملاقات کی اور کوشش کی کہ دونوں ممالک کے درمیان ایک مثبت فضا قائم ہو سکے لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ 
 
سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان سید حسن نصراللہ نے کہا کہ سعودی عرب نے شروع سے ہی ایران کو اپنا دشمن ملک سمجھ رکھا ہے۔ عراقی صدر صدام حسین کو ایران کے خلاف جنگ پر اکسانے والا بھی سعودی عرب ہی تھا اور سعودی عرب ہی 8 سالہ جنگ کے دوران صدام حسین کی مالی مدد کرتا رہا۔ لیکن اس جنگ میں ایران کو کامیابی حاصل ہوئی۔ اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان ایرانی قوم، عراقی قوم، فلسطینی قوم اور فلسطین کاز کو پہنچا۔ ایران کے خلاف جنگ ختم ہوتے ہی صدام حسین نے کویت پر حملہ کر دیا۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ سعودی عرب نے ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے لے کر آج تک ایران کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے اور اس میں کبھی بھی وقفہ نہیں آیا۔ سعودی عرب میں کسی ملک پر براہ راست حملہ کرنے کی جرات نہیں لیکن وہ بالواسطہ طور پر براکسی وار کے ذریعے دوسرے ممالک کے خلاف لڑتا ہے اور اپنی دولت کو اسی راستے میں خرچ کرتا ہے۔ سعودی عرب بالواسطہ طور پر شام، ایران، عراق اور لبنان کے خلاف جنگ کر رہا ہے۔ 
 
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے ایک سعودی شہزادے ولید بن طلال کے اس بیان کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہ سعودی عرب اور اہلسنت ایران اور شیعوں کے خلاف جنگ کی حالت میں ہیں کہا: ایران اور سعودی عرب کے درمیان پائے جانے والے اختلافات انتہائی بنیادی نوعیت کے ہیں اور شہزادہ ولید بن طلال کی رائے اہلسنت کی رائے نہیں اور ایران اور سعودی عرب کے درمیان پائے جانے والے اختلافات بھی مذہبی نوعیت کے نہیں۔ سعودی عرب کے مصر، یمن اور شام سے بھی اختلافات ہیں، کیا یہ ممالک شیعہ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب چاہتا ہے کہ تمام عرب ممالک اس کے حکم کے تابع ہوں اور اس حکمرانی میں کوئی اس کا شریک نہ ہو۔ 
 
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ چند روز قبل قطر سے ایک وفد نے میرے ساتھ ملاقات کی ہے اور ہمیں امید ہے کہ قطر اس کے بعد خطے میں مثبت رویہ اپنائے گا جیسا کہ حال ہی میں اس نے شام میں ہمارے اغوا کئے گئے افراد کی آزادی میں بہت اچھا کردار ادا کیا ہے۔ ہمارا کسی سے کوئی جھگڑا نہیں اور ہم کسی کی توہین بھی نہیں کرتے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ سے شام کے مسئلے کو پرامن اور سفارتی طریقے سے حل کرنے پر زور دیا ہے۔ ہم ہمیشہ سے قطر کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں لیکن قطر اور ہماری سیاست مختلف ہے۔ انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ شام کے مسئلے کا فوجی حل ممکن نہیں اور موجودہ صورتحال کو ختم کرنا بھی صحیح نہیں۔ لہذا ہم ان تمام ممالک جو شام کے مسئلے سے مربوط ہیں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سیاسی راہ حل تلاش کریں۔ اسی لئے ہم نے قطر سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور ان سے لبنان کے مسائل پر بھی بات چیت کر رہے ہیں۔ 
 
شام کے بارے میں ترکی کا منصوبہ ناکام ہو چکا ہے:
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ہم نے ترکی سے بھی رابطہ استوار کر رکھا ہے اور ہمارا اس سے رابطہ کٹا نہیں ہے۔ ہم ترکی کے سفیر سے بھی کئی ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ شام میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے بعد ترکی نے ہمارے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں کیونکہ شام کے مسئلے میں ترکی کو اچھا خاصا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ شام میں بحران پیدا ہونے سے پہلے ترکی کے لبنان، صدر بشار اسد اور ایران کے ساتھ بہت اچھے تعلقات قائم تھے لیکن اب شام کے ساتھ ان کے سفارتی تعلقات منقطع ہو چکے ہیں اور عراق کے ساتھ بھی ترکی کے تعلقات بہت خراب ہو چکے ہیں جبکہ ایران کے ساتھ بھی ان کے تعلقات اس حد تک خراب ہو گئے تھے کہ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ایران اور ترکی کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع ہو جائیں گے۔ شام کے بارے میں ترکی کا منصوبہ بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ ترکی نے خطے میں اور مصر میں کیا کردار ادا کیا ہے؟ ترکی کی خارجہ سیاست کو بہت نقصان پہنچا ہے جس کا اثر اس کے اندرونی حالات پر بھی پڑا ہے۔ 
 
خطے پر سب سے زیادہ اثرورسوخ ایران کا ہے؟
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ایران خطے کا ایک بڑا ملک ہے اور آج خطے پر اس کا اثرورسوخ سب سے زیادہ ہے۔ ایران ہم سے مشورے میں ہے اور یہ مشورہ صرف لبنان کے مسائل تک محدود نہیں۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کی کہ خطے میں اسرائیل کی صہیونیستی رژیم کے خلاف جاری اسلامی مزاحمت کے بارے میں ایران کا موقف ہر گز تبدیل نہیں ہو سکتا۔ ایران ہمیشہ اسلامی مزاحمت کی حمایت کرتا رہے گا۔ ایران کبھی بھی مسئلہ فلسطین کے بارے میں اپنا اصولی موقف تبدیل نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کا پرامن حل ممکن نہیں اور اب تک انجام پانے والے مذاکرات اسرائیل سے فلسطینی قوم کا چھوٹے سے چھوٹا حق بھی تسلیم نہیں کروا سکے۔ 
 
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اگر 14 مارچ گروپ کے سعودی عرب سے تعلقات ہمارے ایران سے تعلقات کی مانند ہوتے تو لبنان میں پائے جانے والے تمام مسائل حل ہو چکے ہوتے۔ کیونکہ ایران کبھی بھی لبنان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا اور ہمیں نہیں کہتا کہ کیا کرو اور کیا نہ کرو۔ ایران لبنان میں صرف ایک چیز کا خواہاں ہے اور وہ یہ کہ لبنانی عوام آپس میں متحد رہیں اور آپس میں مفاہمت اور تعاون جاری رکھیں اور کاش ہمارے مدمقابل گروپ کا بھی کوئی ولی فقیہ ہوتا۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والا جوہری معاہدہ کسی بھی صورت لبنان کے نقصان میں نہیں۔ 
 
شام میں حزب اللہ کی موجودگی لبنان کے دفاع کیلئے ہے:
سید حسن نصراللہ نے او ٹی وی کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ شام میں ہماری موجودگی درحقیقت لبنان کے دفاع کیلئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر شام میں حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہ کامیاب ہو جائیں تو لبنان ایک عظیم خطرے کا شکار ہو جائے گا۔ اگر ہم القصیر اور القلمون میں اپنا فرض ادا نہ کرتے تو آج دسیوں یا شائد سینکڑوں کار بم لبنان میں داخل ہو چکے ہوتے۔ ہم نے شام میں اس لئے مداخلت کی ہے تاکہ اس خطرے کو روک سکیں۔ اب تک لبنان میں جتنے بھی خودکش دھماکے ہوئے ہیں ان میں استعمال ہونے والی گاڑیاں یبرود کے علاقے سے عرسال کے راستے لبنان میں لائی گئی ہیں۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ دہشت گرد عناصر نہ صرف شام سے لبنان میں دہشت گردانہ بم حملے کروا رہے ہیں بلکہ عراق میں بھی خودکش دھماکوں میں استعمال ہونے والی گاڑیاں شام کے ان علاقوں سے بھیجی جاتی ہیں جہاں مسلح دہشت گرد گروہوں کا کنٹرول ہے۔ 
 
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ سعد حریری اور صقر جیسے افراد لبنان سے دہشت گرد بھرتی کر کے شام بھیجنے میں ملوث ہیں۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ دہشت گرد گروہ شام میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو تمہارے پاس کیا ضمانت موجود ہے کہ وہ لبنان میں دہشت گردی نہیں کریں گے؟ ہم جو کچھ آج شام میں انجام دے رہے ہیں اسے لبنانی قوم کی حمایت حاصل ہے اور یہ حمایت 1982 سے لے کر 1990 تک انجام پانے والے ہمارے اقدامات سے بھی زیادہ ہے۔ انشاءاللہ ایک دن ایسا آئے گا کہ لوگ شام میں مداخلت کرنے پر حزب اللہ کا شکریہ ادا کریں گے۔ سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان نے کہا کہ شام میں ہماری موجودگی کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے۔ شام میں جو افراد مسلح دہشت گرد گروہوں کے خلاف برسرپیکار ہیں وہ یا تو شامی فوج سے وابستہ ہیں یا عوامی فورس کا حصہ ہیں۔ حزب اللہ کے مجاہدین صرف دمشق کے نواحی علاقوں، حمص اور لبنانی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں موجود ہیں جبکہ دوسرے علاقوں جیسے درعا، سویدا، قنیطرہ، دیرالزور اور شمالی حلب میں حزب اللہ کا ایک مجاہد بھی موجود نہیں۔ القلمون میں جاری آپریشن میں بھی صرف شامی فوج اور عوامی فورس کے افراد شامل ہیں۔ 
 
شام حکومت کی سرنگونی ناممکن ہے:
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ فوجی طریقے سے شام حکومت کو سرنگون کرنا بالکل ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے شام پر حملہ نہیں کیا اور دنیا والے آج سفارتی طریقے سے شام کا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے بعض ممالک ابھی اس نتیجے پر نہ پہنچے ہوں کہ شام کے مسئلے کا حل صرف سیاسی ہے لیکن بہت جلد وہ بھی اسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سعودی عرب اب بھی شام میں مسلح دہشت گردی کو ہوا دینے پر مصر ہے اور کسی طور پر سیاسی راہ حل کو اختیار کرنے پر راضی نظر نہیں آتا۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ سعودی حکام کی پوری کوشش ہے کہ 22 جنوری کو برگزار ہونے والی جنیوا 2 کانفرنس سے پہلے پہلے شام کے حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہوں کی فوجی اور مالی امداد کے ذریعے زمینی حقائق کو ان کے حق میں تبدیل کریں۔ لیکن یہ کوششیں بھی مشرقی الغوطہ میں انجام پانے والی سازشوں کی طرح شکست سے دوچار ہوں گی۔ البتہ بعض ایسی قوتیں بھی ہیں جو حتی جنیوا 2 کانفرنس کا انعقاد بھی نہیں چاہتیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے شام کے بعض حکومت مخالف گروہوں کے ساتھ بھی رابطہ قائم کر رکھا ہے اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ حکومت مخالف گروہوں کو پہنچنے والا نقصان شام حکومت کے نقصان سے کہیں زیادہ ہے۔ کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ شام حکومت صرف اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے پر اب تک قائم ہے کیونکہ ایسا ممکن نہیں۔ شام حکومت مضبوط عوامی حمایت سے برخوردار ہے لہذا شام کے مسئلے کو صرف اور صرف سیاسی طریقے سے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ یہ سیاسی راہ حل بھی ایسا ہونا چاہئے جو خود شام کے شہریوں کی جانب سے وضع کیا گیا ہو اور باہر سے ان پر تھونپا نہ گیا ہو۔ اگر کوئی باہر سے شام کے مسئلہ کو حل کرنے میں مدد کرنا بھی چاہتا ہے تو اسے اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اپنی طرف سے شامی عوام پر کوئی راہ حل تھونپنے کی کوشش نہ کرے۔ 
 
لبنان اور عراق میں ہونے والی دہشت گردی میں سعودی عرب ملوث ہے:
سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان نے کہا کہ عراق اور لبنان میں انجام پانے والے دہشت گردانہ اقدامات کے پیچھے سعودی عرب کا ہاتھ ہے۔ سعودی انٹیلی جنس نے القاعدہ کے بعض گروپس کو اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے اور انہیں اپنے سیاسی مفادات کیلئے استعمال کر رہی ہے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ میرے خیال میں بیروت میں ایرانی سفارتخانے پر ہونے والے خودکش دھماکے میں عبداللہ عزام بریگیڈ نامی القاعدہ کے ذیلی گروہ کا ہاتھ ہے جس کی حمایت سعودی عرب کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عراق میں انجام پانے والے خودکش بم دھماکوں میں بھی سعودی انٹیلی جنس ایجنسی کا ہاتھ ہے۔ 
 
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ لبنان میں حکومت کی تشکیل میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ سعودی عرب ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے پیش کردہ 9-9-6 فارمولا انتہائی معقول اور منطقی فارمولا ہے جو تمام سیاسی گروپس کے حقوق کو یقینی بناتا ہے اور ہمارے مخالف گروپ نے بھی اس فارمولے کو تسلیم کر لیا تھا لیکن سعودی عرب نے انہیں کہا کہ فی الحال حکومت نہ بننیں دیں۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے لبنان کے صدارتی انتخابات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم معینہ وقت پر صدارتی انتخابات کی برگزاری کے حامی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ سے لبنان کے مختلف سیاسی گروپس کے درمیان مذاکرات پر زور دیا ہے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ 
خبر کا کوڈ : 327831
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
بہت خوب بڑا مزیدار اور معلوماتی ہے۔
ہماری پیشکش