0
Wednesday 11 Dec 2013 10:54

وکلا خوش، انتطامیہ آزاد اور دہشت گرد یتیم ہو گئے

وکلا خوش، انتطامیہ آزاد اور دہشت گرد یتیم ہو گئے
اسلام ٹائمز۔ پاکستان میں فوری اور سستا انصاف عوام کےلیے ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہا ہے لیکن چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی بحالی کی تحریک میں جہاں ایک طرف وکلا برادری سرگرم نظر آئی وہیں عام لوگوں نے بھی اس میں بھرپور دلچسپی لی۔ ججوں کی بحالی میں عوامی دلچسپی کی ایک بڑی وجہ سستے انصاف کے حصول کا خواب تھا۔ چیف جسٹس رخصت ہو رہے ہیں لیکن سستے انصاف کے حصول اب ایک خواب ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کی بحالی کے بعد فوری اور سستے انصاف کا خواب پورا نہیں ہو سکا اور انصاف کا حصول مزید مہنگا ہو گیا ہے؟ اس پر وکلاء تحریک میں’ انصاف سب کے لیے‘ کے نعرے لگانے والے جوشیلے وکیل رہنما علی احمد کرد سے بات کی تو انہوں نے دلبراشتہ ہو کر کہا کہ اس پر بات کرنے کا دل نہیں کرتا ہے۔ ’بس کیا کہوں ایک آدمی کو قدرت نے اتنا بڑا موقع دیا لیکن انھوں نے کچھ نہیں کیا اور ایک عام اور غریب آدمی کا حال ویسے کا ویسے ہی ہے۔‘

بی بی سی کیمطابق اس پر مزید بات کرتے ہوئے جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود نے کہا کہ چیف جسٹس کے دور میں انصاف بالکل مہنگا ہوا۔ ’کچھ لوگوں نے یہ سمجھنا شروع کر دیا کہ چونکہ تحریک انہوں چلائی تھی اس لیے اس کی اونرشپ کے حق دار بھی وہی ہیں اور یہ تاثر دینا شروع کر دیا۔ جبکہ موکل کو اس بات سے مقصد ہوتا ہے کہ اس کو ریلیف ملے چاہے اس کا حق بنتا ہے یا نہیں۔‘ جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود کے مطابق وکلا کی فیسیوں میں اضافے کے علاوہ انصاف کے مہنگے ہونے کی ایک وجہ سپریم کورٹ میں عام مقدموں کے علاوہ ازخود نوٹس کے مقدموں کی سماعت ہے۔ ’ ان کیسز کو زیادہ وقت دیا جاتا تھا اور اسی وجہ سے دیگر مقدمات کو وقت نہیں مل پاتا تھا جس کی وجہ سے دیگر شہروں سے آنا جانا اور اسلام آباد میں رکنا موکل کو ہی برداشت کرنا پڑا تھا۔‘

ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے وکلا کے معاوضے میں اضافے اور ان سے قربت کے تاثر کو ختم کرنے کے لیے کوئی اقدام کیوں نہیں کیے؟ اس پر جسٹس طارق محمود کا کہنا تھا کہ ’چیف جسٹس کو اس طرح کے وکلا کی زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کرنا چاہیے تھی۔ ’لیکن ہمارے سامنے تھا کہ انھوں نے ضلعی بار ایسویشی ایشنز کے دورے کیے اور انتخابات کے بعد ان سے جا کر حلف لیا اور چیف تیرے جانثار کے نعرے بلند ہونا شروع ہوئے۔‘ نچلی سطح پر سستے انصاف کی فراہمی سے متعلق جسٹس طارق محمود کا کہنا تھا کہ ’افتخار چوہدری ملکی تاریخ کے انتہائی طاقتور چیف جسٹس تھے۔’اگر وہ اپنے ادارے کی جانب زیادہ توجہ دیتے تو آج فخر سے یہ بات کہی جا سکتی تھی کہ انتظامیہ اور مقننہ کے برعکس عدلیہ نے اپنا کام کیا۔ آج اگر پارلیمان اور انتظامیہ پر بات ہوتی ہے تو عدلیہ کے کردار پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔‘

تین نومبر سنہ دو ہزار سات میں پاکستان میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد جسٹس افتخار محمد چوہدری کی چیف جسٹس کے عہدے پر اور اعلیٰ عدلیہ کے دیگر ججز کو بحال کروانے کے لیے چلنے والی تحریک کے کرتا دھرتا افراد شاید افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ پر اُتنی ہی خوشی محسوس کر رہے ہیں جتنی اُنہیں 16 مارچ سنہ 2009 کو اُنہیں افتخار محمد چوہدری کی بطور چیف جسٹس بحالی پر ہوئی تھی۔ اس عرصے کے دوران وکلا تحریک کے سرکردہ رہنما چیف جسسٹس سے دور ہوتے گئے شاید اس کی وجہ افتخار محمد چوہدری کے ایسے اقدامات ہیں جن پران رہنماؤں کو تحفظات تھے۔ سردار لطیف کھوسہ کہتے ہیں کہ وکلاء نے جس مقصد کے لیے عدلیہ بحالی کی تحریک شروع کی تھی وہ مقصد شائد پورا نہیں ہوا۔ اُنہوں نے کہا کہ اس تحریک کا مقصد افتخار محمد چوہدری کی ذات کی بحالی نہیں بلکہ عدلیہ کو خود مختار بنانا تھا اور خاص طور پر ضلعی عدالتیں جہاں پر لوگ آج بھی انصاف کے حصول کے لیے آتے ہیں جہاں پر اُنہیں اپنا حق لینے کے لیے سالوں بیت جاتے ہیں۔

چیف جسٹس کے وکلاء حمایتی گروپ سے علیحدگی کے سوال پر علی احمد کرد کُھل کر بات نہیں کر رہے تاہم یہ وہ ضرور کہتے ہیں کہ جس مقصد کے لیے اُنھوں نے لاٹھیاں کھائیں اور قید وبند کی صحبتیں برداشت کیں وہ رائیگاں چلی گئیں اور آج بھی لوگ انصاف کے حصول کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ بیرسٹر اعتزاز احسن اور عاصمہ جہانگیر جیسے وکلاء کے سرکردہ رہنما بھی چیف جسٹس کے مخالف گروپ کا حصہ نظر آتے ہیں۔ ان وکلاء رہنماؤں نے بھی اعلیٰ عدالتوں میں ججز کو تعینات کرنے کے لیے نام تجویز کرنے کے چیف جسٹس کے اختیار کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے دیگر ارکان کو بھی نام تجویز دینے کا اختیار ہونا چاہیے۔ افتخار محمد چوہدری کی عہدے پر بحالی کے بعد اُن کا حمایتی سمجھا جانے والا وکلا کا گروپ مسلسل چار سال سے پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات میں شکست کا سامنا کر رہا ہے۔ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ پر چاروں صوبوں کی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنز اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اُن کے اعزاز میں الوداعی تقریبات کا بھی اہتمام نہیں کیا۔ افتخار محمد چوہدری کی پالیسیوں سے اختلاف کرنے والے وکلا گروپ کے چند رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ اپنا ردِعمل افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے بعد دیں گے۔

جب افتخار چوھدری کو ہٹایا گیا تو اس بارے میں جنرل مشرف کا موقف یہ تھا کہ مذکورہ جسٹس نے نظام حکومت کو معطل کر کے رکھ دیا تھا۔ کئی دہشت گردوں کو آزادی ملی۔ لاپتہ افراد اور دیگر کیسسز کو انسانی حقوق کی بنیاد پر اس طرح اچھالا گیا کہ ریاست کے خلاف بغاوت، خود کش حملے اور دہشت گردی جائز شمار ہونے لگے۔ افتخار محمد چوھدری کے زیر سایہ انکا بیٹا سفارش پر سیکورٹی ادراے میں بھرتی ہوا، جو آج اربوں کے اثاثوں کا مالک ہے۔ دہشت گردی کا شکار عوام میں یہ تاثر عام ہے کہ اور کچھ ہو نہ ہو مذکورہ جسٹس کے جانے کے بعد انسانی حقوق کے نام غیر ملکی ایجنٹوں اور دہشت گرد عناصر کی قانونی سرپرستی ختم ہو جائے گی۔ اسکے بعد یہ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ ملک دشمن عناصر کیخلاف بے دریغ کاروائی کریں۔
خبر کا کوڈ : 329484
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش