0
Friday 20 Dec 2013 23:14

سپریم کورٹ کا لاپتہ افراد کو پیش کرنیکا کا حکم

سپریم کورٹ کا لاپتہ افراد کو پیش کرنیکا کا حکم

اسلام ٹائمز۔ وفاقی حکومت اور آئی جی ایف سی سمیت بلوچستان حکام 35 لاپتہ افراد کو بازیاب کرا کر سپریم کورٹ میں پیش نہ کر سکے جبکہ عدالتی حکم پر قائم مقام آئی جی ایف سی خالد سلیم عدالت میں پیش ہو گئے اور موقف اختیار کیا کہ یہ تاثر ختم کیا جائے کہ تمام لاپتہ افراد ایف سی نے اٹھائے ہیں۔ جس پر عدالت نے کہا کہ وہ عملی طور پر اس کو ثابت کریں۔ آئی جی ایف سی نے بیان دیا کہ اغواء میں مبینہ ملوث ایف سی کے 9 افسران میں سے ایک نان کمیشنڈ افسر اللہ بخش کی شناخت ہو گئی ہے۔ جنہوں نے ضمانت قبل از گرفتاری کرا لی ہے، جبکہ پانچ سے چھ دیگر افسران کی شناخت آخری مرحلے میں ہے۔ کچھ آرمی کے افسران تھے جو واپس جا چکے ہیں۔ ان کے حوالے سے پاک فوج کو خط لکھ دیا ہے۔ ایف سی اپنا کام کر رہی ہے۔ جلد نتائج دینگے جبکہ عدالت نے لاپتہ افراد کو بازیاب کرکے پیش، ڈاکٹروں سمیت تمام طبقات کو فول پروف سکیورٹی فراہم، ڈاکٹروں کو قانون کے مطابق اسلحہ لائسنس جاری، ایف سی افسران کو ڈی آئی جی سی آئی ڈی کے روبرو پیش کرکے چھبیس دسمبر تک رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔

چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ریمارکس دیئے کہ ایف سی ریاست کا ادارہ ہے اور ریاست انصاف کی علامت ہے۔ ہم نے لاپتہ افراد کی بازیابی کا حکم دیا ہے۔ آپ کا فرض ہے کہ اس پر عمل ہونا چاہیئے۔ آپ سچ بولیں تو آپ کو کسی وکیل کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ آپ کی وردی تحفظ کی علامت ہونی چاہیئے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ لوگ آپ پر اغواء کا الزام لگا رہے ہیں۔ بلوچستان میں امن لانے کے لیے عام لوگوں کو اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اغواء کاروں اور ملزمان کے نام اور تمام تر شواہد قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دینا ہی پڑینگے۔ عام لوگوں کی طرح پولیس حکام کی بھی ایک بڑی تعداد شہید ہوئی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ڈاکٹروں کو تحفظ فراہم نہیں کرینگے تو ملزمان کے نام کیسے دینگے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ پولیس اور ایف سی ڈاکٹروں کو مناسب سکیورٹی فراہم کرے تو یہ اغواء ہی نہیں ہونگے۔ اغواء میں ملوث افراد کو گرفتار تو کیا جاتا ہے مجسٹریٹ کے سامنے بیان نہیں دلوائے جاتے۔ ایک ڈاکٹر تو اغواءکاروں کو جانتا ہے، حیرت ہے پولیس اور ایف سی والے نہیں جانتے۔ اگر ایف سی لوگوں کو لاپتہ نہیں کرتی تو وہ یہ اپنے کردار سے ثابت کرے۔

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ملزمان کو ان کے منطقی انجام تک پہنچائے بغیر بلوچستان میں امن کا قیام ممکن نہیں۔ اغواء کا مسئلہ جڑ سے ختم کرنے کیلئے گواہوں کو تحفظ فراہم کرنا پڑے گا۔ انہوں نے یہ ریمارکس گذشتہ روز دیئے ہیں۔ اٹارنی جنرل منیر اے ملک بطور اٹارنی جنرل مقدمے سے علیحدہ ہو گئے۔ وہ اب عدالتی معاون کے طور پر پیش ہوں گے جبکہ اٹارنی جنرل آفس کی طرف سے شاہ خاور عدالت میں پیش ہوں گے۔ عدالت نے ان کی تاریخ کی سماعت پر آئی جی پولیس، سیکرٹری داخلہ بلوچستان اور قائم مقام آئی جی ایف سی کو پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے آئی جی ایف سی توہین عدالت کیس کی سماعت شروع کی تو اس دوران اٹارنی جنرل منیر اے ملک ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر، قائم مقام آئی جی ایف سی سمیت دیگر حکام پیش ہوئے۔

خبر کا کوڈ : 332655
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش