0
Wednesday 25 Dec 2013 17:45

بلوچستان میں امن و امان کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس

بلوچستان میں امن و امان کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس

بلوچستان کی سیاسی، مذہبی و قوم پرست جماعتوں اور تاجر تنظیموں نے اغواء برائے تاوان کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان وارداتوں میں ملوث افراد اور ان کی سرپرستی کرنے والے شخصیات کیخلاف سخت کارروائی کریں۔ اغواء کی وارداتوں میں ملوث افراد کو پولیس اور سکیورٹی اداروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ سیاسی جماعتوں نے خفیہ ایجنسیوں اور حساس اداروں کو متنبہ کیا کہ وہ اپنے طور پر درپردہ مسلح گروپوں کا فوری خاتمہ کریں۔ ارباب عبدالظاہر کاسی بازیاب نہ ہوئے تو صوبے کی تمام قومی شاہراہوں کو بلاک کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کی تمام مذہبی، سیاسی اور قوم پرست جماعتوں نے شرکت کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی کوآرڈینٹر حاجی عبدالجبار کاکڑ نے کہا ہے کہ اے این پی نے کبھی اصولوں پر سودا بازی نہیں کی اور ارباب عبدالظاہر کاسی کے بازیابی کے حوالے سے ایک رضاکارانہ کمیٹی تشکیل دی گئی۔ جو حکومت اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ملاقات کرکے ارباب عبدالظاہر کاسی کی بازیابی کے حوالے سے ہر ممکن اقدامات کریں گے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا ہے کہ اغواء برائے تاوان اور دیگر جرائم کی واردات نہ سابقہ حکومت نے کنٹرول کیں اور نہ ہی موجودہ حکومت کنٹرول کر سکی ہے، کیونکہ اس ملک اور خاص کر بلوچستان کے معاملات میں خفیہ اداروں کا براہ راست ہاتھ ہے۔ اس ملک کو سیاستدانوں نے نہیں، بلکہ فوج نے بنایا اسی وجہ سے آج افغانستان اور عراق سے زیادہ پاکستان کی صورتحال تشویشناک ہے۔ اے این پی نے پہلے بھی اصولوں پر سودا بازی نہیں کی اور آج بھی اصولوں پر سودا بازی نہیں کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عوام اب ترقیاتی کام نہیں بلکہ امن چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس نظام کو صرف عوام ہی تبدیل کرسکتے ہیں۔ ہم ان قوتوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ ملک کی بجائے عوام کو بچائے تاکہ ملک ترقی کر سکے اور امن و امان قائم ہو سکے۔ جمعیت علماء اسلام کے رہنماء اور اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے کہا ہے کہ اغواء کاروں کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ارباب ظاہر کاسی کے خاندان اور اے این پی جو تاریخی فیصلہ کیا ہے کہ وہ داد کے قابل ہے۔ جمعیت علماء اسلام اے این پی کے ساتھ جدوجہد میں شریک ہے صو بے اور کوئٹہ شہر کو لیٹروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ارباب عبدالظاہر کاسی کی بازیابی کیلئے اقدامات کریں تاکہ ان کی بازیابی ممکن ہو سکے۔ مسلم لیگ (ق) کے صوبائی صدر اور وزیر ریوینو شیخ جعفر خان مندوخیل نے کہا ہے کہ افسوس ہے کہ اب تک حکومت کو ارباب عبدالظاہر کاسی کی بازیابی کے حوالے سے خاص کامیابی نہیں ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کیلئے سب سے بڑا مسئلہ اغواء برائے تاوان اور نیشنل ہائی وے پر ڈکیتی کی روک تھام ہے اور حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ کہ وہ عوام کو تحفظ فراہم کریں اور ان لوگوں تک پہنچے جو اغواء برائے تاوان میں ملوث ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اغواء برائے تاؤان کی وارداتوں کی روک تھام کیلئے بھرپور اقدامات اٹھائیں اور سیاسی جماعتیں بھی اس جہاد میں حکومت کا ساتھ دیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں پاکستان کا امیج خراب ہوتا جا رہا ہے کہ ملک میں اقلیتوں کو تحفظ نہیں اور اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں کوئی بھی عام شہری محفوظ نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے عوام کو تحفظ فراہم نہ کیا تو آئندہ کوئی بھی تحفظ فراہم نہیں کر سکتے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا ہے کہ بلوچستان کے حالات تشویشناک ہو چکے ہیں۔ یہاں پر کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اغواء برائے تاوان اور دیگر واقعات میں خفیہ اداروں کا ہاتھ ہے۔ جب تک ہم خفیہ اداروں کو لگام نہیں دیتے اس وقت تک حالات ٹھیک نہیں ہونگے اور اغواء برائے تاوان کا سلسلہ جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ارباب عبدالظاہر کاسی کا اغواء بلوچستان کی روایات پر حملہ ہے اور جب ہم اپنی روایات کو برقرار نہ رکھ سکیں تو عوام کو خوشحال مستقبل کیسے فراہم کریں گے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری رشید خان ناصر نے آل پارٹیز کانفرنس کے شرکاء کو خوش آمدید کرتے ہوئے کہا کہ آج کی یہ آل پارٹیز کانفرنس ہماری پارٹی کے رہنماء ارباب عبدالظاہر کاسی کی بازیابی اور شہر میں امن و امان کے حوالے سے مشترکہ جدوجہد کیلئے بلائی گئی ہے۔ جس میں بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتیں شریک ہیں۔ ان سب کو حکومت اور سکیورٹی اداروں کے بےبسی اور امن و امان کے قیام کیلئے عوام کی طاقت سے مشترکہ جدوجہد کرنی چاہیئے۔ پشتونخواملی عوامی پارٹی کے صوبائی رہنماء سید عبدالقادر آغا نے کہا ہے کہ ارباب ظاہر کاسی صرف اے این پی کے نہیں بلکہ کوئٹہ شہر کی ایک معتبر شخصیت ہیں۔ اے این پی اور کاسی قبیلے نے جو قربانیاں دی ہے وہ کبھی بھی فراموش نہیں ہوں گی۔

پشتونخوامیپ کے رہنماء کا کہنا تھا کہ کوئٹہ اور بلوچستان میں اغواء برائے تاوان کے واقعات میں پولیس افسران ملوث رہے ہیں اور بدقسمتی یہ ہے کہ گذشتہ دنوں لورالائی سے جو ڈاکٹر اغواء ہوئے تھے، ان کے ملزمان بھی پکڑے گئے لیکن چیف سیکرٹری بلوچستان کی ہدایت پر ان کو چھوڑ دیا گیا۔ اب اندازہ کریں جب حکومت کی ایک اعلٰی پوسٹ پر بیٹھے بیوروکریٹ ان واقعات میں ملوث افراد کی پشت پناہی کرتے ہیں، تو امن کہاں سے آئے گا۔ جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مولانا عبدالمتین اخوانزادہ نے کہا ہے کہ عالمی جبر اور آس پاس کے ہمسایہ ممالک کی مداخلت کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہوئے کہ لوگ اغواء برائے تاوان میں ملوث ہوئے اور ان کی پشت پناہی بھی خفیہ ادارے کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ پندرہ سالوں میں اغواء برائے تاوان کے واقعات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اب رکنے کا نام نہیں لے رہے۔ انہوں نے کہا کہ جن اداروں سے یعنی ایف سی سے لوگ بیزار ہے۔ جو بھی حکومت آتی ہے ان کے اختیارات میں توسیع کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب سیاسی رویئے اور حکمرانی طرز پر سوچنا ہو گا۔ جمعیت علماء اسلام نظریاتی کے مرکزی نائب امیر مولانا عبدالقادر لونی نے کہا ہے کہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کو تحفظ فراہم کریں۔ انہوں نے ایک قوم پرست جماعت کی طرف ارشارہ کر تے ہوئے کہا کہ جب وہ اپوزیشن میں تھے، کہتے تھے کہ اغواء برائے تاوان میں 70 گروپ ملوث ہیں۔ اب بتائیے کہ حکومت میں ہوتے ہوئے کتنے گروپ پکڑے ہیں۔

مولانا عبدالقادر لونی کا مزید کہنا تھا کہ اگر حکومت عوام کو تحفظ دینے میں ناکام ہو چکی ہیں تو اب عوام اور سیاسی جماعتیں اٹھ کھڑی ہوں اور عوام کو تحفظ فراہم کریں۔ انہوں نے کہا کہ جب حکومت میں شامل جماعتیں کہہ رہی ہے کہ اغواء برائے تاوان میں ملوث افراد کی پشت پناہی چیف سیکرٹری بلوچستان کر رہا ہے، تو پھر اس حکومت سے توقع ہی نہیں کرنی چاہیئے۔ نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء محراب بلوچ نے کہا ہے کہ حالات انتہائی پیچیدہ ہیں۔ یہاں پر کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء اور سابق رکن قومی اسمبلی روگ مینگل نے کہا ہے کہ 7 ماہ کے دوران 70 افراد خودکش حملوں میں شہید ہوئے، 188 افراد اغواء ہوئے، 55 افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے، 80 افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہے اور 100 سے زائد گاڑیاں چوری ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت پھر بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صوبائی جنرل سیکرٹری نصیب اللہ بازئی نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت اس مسئلے پر ٹھوس اقدامات اٹھائے اور اگر وہ نہیں کرسکتے تو مرکزی حکومت سے رجوع کیا جائے۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی چئیرمین عبدالخالق ہزارہ نے کہا ہے کہ گذشتہ پندرہ سالوں میں کوئٹہ کو دہشتگردوں کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا ہے۔ اب تک ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کو قتل کیا گیا۔ تاجروں، ڈاکٹروں اور وکیلوں کو اغواء کرکے ان سے تاوان طلب کیا اور اب ان قوتوں نے ایک قبیلے کے نواب اور پارٹی سربراہ کو اغواء کر لیا۔

عبدالخالق ہزارہ کا مزید کہنا تھا کہ ان تمام واقعات کی ہم مذمت کرتے ہے اور ان قوتوں کو باور کرانا ہے کہ کوئٹہ شہر کو بچانا ہوگا۔ اگر کوئٹہ شہر نہیں بچا، تو کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں رہے گی۔ مرکزی انجمن تاجران کے صدر عبدالرحیم کاکڑ نے کہا ہے کہ ان تمام واقعات میں خفیہ اداروں کا ہاتھ ہے۔ اگر حکومت ان واقعات کی روک تھام نہیں کر سکتی تو پھر عوام مجبور ہو کر اپنی حفاظت کیلئے کھڑے ہو نگے۔ اس موقع پر ارباب ہاشم کاسی، ارباب خالد کاسی، ملک سکندر ایڈووکیٹ، شفقت لانگو اور دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا اس کے علاوہ ارباب عبدالظاہر کاسی کی بازیابی کے حوالے سے سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ جن میں تمام سیاسی جماعتوں سے دو دو ممبران نامزد کئے اور کمیٹی کا اجلاس 27 دسمبر کو طلب کر لیا گیا۔

خبر کا کوڈ : 334186
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش