0
Saturday 28 Dec 2013 19:00

خارجہ پالیسی ڈرون حملوں کی بنیاد پر تشکیل نہیں دی گئی، دفتر خارجہ

خارجہ پالیسی ڈرون حملوں کی بنیاد پر تشکیل نہیں دی گئی، دفتر خارجہ
اسلام ٹائمز۔ جمعرات کو بطورِ خاص امریکا کا نام لیے بغیر کہا دفتر خارجہ کی ترجمان نے میڈیا کو یہ بتایا کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے گزشتہ ہفتے ایک قرارداد میں کہا تھا کہ ڈرون حملوں کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین کو پیش نظر رکھا جائے، اس کے باوجود ملک کے خارجہ تعلقات پر ڈرون کے معاملے کا سایہ نہیں پڑے گا۔ تاہم افغانستان کے حوالے سے امریکا کے ساتھ تعاون پر دفترِ خارجہ نے کہا کہ اسکا انحصار ہمسایہ ملک کے اندر مستقبل میں امریکا کی موجودگی پر ہو گا۔ دفترِ خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کہا کہ ہم اس حوالے سے بہت واضح مؤقف رکھتے ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی محض ڈرون حملوں کی بنیاد پر تشکیل نہیں دی گئی ہے اور نہ ہی ہمارے تعلقات صرف ایک ملک کے ساتھ ہیں۔ یہ ایک وسیع میدانِ عمل ہے۔ ہمارے اپنے قومی مفادات ہیں اور ہم بین الاقوامی برادری کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دینے اور پاکستان میں اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے بہت سے طریقہ کار پر کام کر رہے ہیں۔ ہم تنگ نظری کے تحت کسی ایک معاملے کے اردگرد اپنی خارجہ پالیسی کو محدود نہیں رکھنا چاہتے۔

تسنیم اسلم کا یہ تبصرہ بظاہر دفترِ خارجہ کے پچھلے مؤقف کے برعکس محسوس ہوتا ہے، جس میں کہا گیا تھا، کہ ڈرون حملے دونوں ممالک (امریکا اور پاکستان) کے خوشگوار اور تعاون پر مبنی تعلقات کی باہمی خواہش پر منفی اثرات مرتب کررہے ہیں۔ یہ موقف گذشتہ یکم نومبر کے بیان میں سامنے آیا تھا، اور ڈرون پر بعد کے بیانات میں یہ مؤقف ظاہر نہیں کیا گیا تھا، اگرچہ ان حملوں کی رسمی مذمت کی گئی تھی۔ میران شاہ پر ہوئے حالیہ ڈرون حملے اور اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ڈرون پر ایک قرارداد کی منظوری کے بعد دفترِ خارجہ کے بیان سے ڈرون حملوں پر حکومتی مؤقف میں ممکنہ نرمی ظاہر ہوتی ہے۔ تاہم تسنیم اسلم نے ان حملوں پر پالیسی مؤقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ حکومت جمعرات کی رات کو شمالی وزیرستان میں ہوئے حملے کو پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی قرار دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلسل یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ڈرون حملے غیر تعمیری ہیں، معصوم شہروں کی جانوں اور انسانی حقوق کے زیاں کا سبب اور انسانیت پسندوں کے لیے باعث تشویش ہیں، اس طرح کے حملوں نے بین الریاستی تعلقات کے حوالے سے خطرناک مثالیں بھی قائم کی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی حوالہ دیا کہ ڈرون حملوں کے خلاف بین الاقوامی اتفاق رائے موجود ہے اور اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 334697
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش