0
Saturday 28 Dec 2013 11:32

پاراچنار، خیواص آبادکاری مہم

پاراچنار، خیواص آبادکاری مہم
رپورٹ: ایس این حسینی

پاراچنار کے مغرب میں تقریباً 12 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شلوزان نامی گاؤں کرم ایجنسی کا ایک خوبصورت علاقہ ہے، جس میں بنگش ٹرائب کے چھ ذیلی قبیلے آباد ہیں۔ جنہیں شپیگ قامی (چھ قومیں) کہتے ہیں۔ انہی اقوام کا ایک اور قبیلہ بھی ہے جنہیں مقامی طور پر خیواصی (خیواص والے) کہتے ہیں، جو شلوزان کے شمال میں واقع ایک خوبصورت درے شلوزان تنگی میں خیواص کے مقام پر آباد ہیں۔ شلوزان تنگی سلسلہ کوہ سفید کے کافی اندر ایک ایسا درہ ہے، جس کے شمال مغرب میں پورا سال برف کی سفید چادر اوڑھے کرم ایجنسی کی سب سے اونچی پہاڑی چوٹی سی کَرم اپنے شہپر پھیلائے ہوئے ہے۔ سی کرم کے جنوبی دامن میں سپینہ شگہ اور تری منگل واقع ہیں۔ سپینہ شگہ میں گلبدین حکمتیار کا قبیلہ خروٹی آباد ہے۔ اسی وجہ سے یہ علاقہ (سپینہ شگہ) 1980ء تا 1990ء گلبدین حکمتیار کی حزب اسلامی کا ہیڈ کوارٹر رہا ہے۔ جس کا تذکرہ اسماعیل ساگر نے اپنی کتاب "افغانستان پر کیا گزری" میں بھی کیا ہے۔ 

شلوزان تنگی کاغذات مال میں شلوزان کے بنگش قبیلے کی ملکیت ہے، جنہوں نے اپنے مال مویشیوں کی رکھوالی نیز جنگل جاتے وقت اپنی حفاظت کے لئے ہمسایوں (مزراعین) کے طور پر منگل قبیلے کو بسایا تھا۔ یہ (منگل) لوگ اپنے آقاؤں کی حفاظت کے پابند تھے، تاہم اپنی معیشت کی خاطر وہ مال مویشی بھی پالتے تھے، مال مویشی اور جنگل کی لکڑی استعمال کرنے پر ان سے اپنے مالک سالانہ چند دنبے بطور ٹیکس، جنہیں مقامی طور پر قالنگ کہتے ہیں، لیتے تھے۔ 
سالہاسال یہ سلسلہ چلتا رہا اور ماضی قریب تک جاری رہا، آہستہ آہستہ مزارعین طاقتور ہوگئے، تو انہوں نے نہ فقط اپنے آقاؤں کی حفاظت سے ہاتھ کھینچ لیا بلکہ یہ انہی کے لئے درد سر بن گئے۔ معمولی سی رنجش یا مقامی طور پر کسی بھی دو قبائل کی جنگ کو یہ لوگ اپنا مسئلہ گردان کر اہلیان شلوزان کا پانی بند کرلیتے۔ اور اوپر سے مارٹر اور میزائل کے گولے بھی داغنے شروع کردیتے تھے۔ جس سے ایک طرف شلوزان کی زمینین پورا سال بنجر رہتیں، تو دوسری جانب شلوزان کو جانی نقصان کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا تھا۔ 

2007ء کی فرقہ ورانہ لڑائی کے دوران پاراچنار کے دوسری غیر طوری قبائل کی طرح اس علاقے کے منگلوں نے بھی طالبان کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دی۔ 2007ء سے لیکر 2009ء تک ان لوگوں نے شلوزان تنگی کے اندر واقع بنگش قبیلے کے گاؤں خیواص اور تاتوکو کوٹو کا جینا دوبھر کر دیا۔ تاہم مکمل طور پر اس علاقے پر قابو پانے میں ناکام رہے۔ اگست 2009ء میں طالبان نے اس علاقے پر باقاعدہ لشکر کشی کی، اور یوں تاتوکو کوٹو کو مکمل طور پر نیست و نابود کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت کرنے والے اہل تشیع کو بھی بے دردی سے شہید کر دیا۔ اس کے چند دن بعد خیواص پر لشکر کشی کی۔ جو اسٹریٹیجک لحاظ سے ایک طالبان نواز منگل قبائل کے اندر محصور علاقہ تھا اور جہاں تک کمک کی رسانی اگر ناممکن نہ تھی تو مشکل ضرور تھی۔ ستمبر کے ابتدائی ہفتے میں یہ علاقہ طالبان کے محاصرے میں آگیا اور تین دن تک خطرناک لڑائی کے بعد طوری بنگش کی 70 کے لگ بھگ جانوں کے ضیاع کے علاوہ یہ پورا گاؤں بھی صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ جس میں واقع ایک مسجد، ایک امام بارگاہ اور ایک سرکاری سکول بھی جل کر راکھ کا ڈھیر بن گئے۔ 

طوری بنگش اقوام علاقہ تو گنوا ہی بیٹھے، مگر مسئلہ علاقے میں پھنسی لاشوں کا تھا۔ 60 کے قریب لاشیں پھنسی ہوئی تھیں۔ طوری اقوام کے ؐذمہ داروں نے حکومت سے اپیل کی کہ ہمارے پیاروں کی لاشیں ہمارے حوالے کی جائیں۔ لیکن منگل قوم پختون دستورات سے قطعی ناآشنا تھے، انہوں نے حکومتی اہلکاروں پر فائرنگ کی اور لاشیں اٹھانے کے لئے پختون روایات اور غیرت سے متصادم ایک ایسی شرط رکھی جس نے متاثرہ بنگشوں کے زخموں پر نمک چھڑک دیا۔ انہوں نے یہ کہا کہ طوری قبیلے کی خواتین آجائیں، ہم بغیر کسی روک ٹوک کے لاشیں حوالے کر دیں گے۔ 

طوری بنگش اقوام کی غیرت کو اس حد تک للکارا گیا کہ انہوں نے اپنی لاشیں طاقت سے اٹھانے کی ٹھانی۔ دوسرے ہی دن انہوں نے پوری طاقت سے حملہ کیا۔ تو نہ صرف اپنی لاشیں اٹھانے میں کامیاب ہوگئے، بلکہ صرف چند گھنٹوں میں اپنے مقبوضہ علاقے کو اپنے حریفوں، جھنیں ہزاروں طالبان اور القاعدہ کا تعاون بھی حاصل تھا، سے مکمل طور پر آزاد کرلیا۔ جسطرح انہوں نے انکے دو دیہات کو ختم کر دیا تھا۔ بالکل اسی طرح طوری بنگشوں نے بھی منگلوں کے 12 دیہات کو صفحہ ہستی سے مکمل طور پر مٹا دیا۔ لیکن ایک فرق تھا کہ انہوں نے ان کی کسی خاتوں کو نہ مارا، جس طرح منگلوں نے ایک بیمار اور بوڑھی خاتون کو بیدردی سے شہید کر دیا تھا، اور پھر اسکی ویڈیو بنا کر طوری بنگشوں کو بھیجی بھی تھی۔ طوریوں نے لاشوں پر بھی کوئی بارگیننگ نہیں کی، بلکہ اسلام اور پختون روایات کے عین مطابق باعزت طریقے سے لاشیں منگلوں کے حوالے کر دیں۔ 

کچھ عرصہ بعد مری معاہدہ وجود میں آگیا، جس کی ایک شق میں لکھا ہے کہ کاغذات مال کی روشنی میں نئی آباد کاری کی جائے گی، یعنی جن افراد کے نام ملکیتی زمین موجود ہو، جبکہ شلوزان تنگی میں منگلوں کی ملکیتی زمین جو عرصہ بعد انہوں نے مقامی لوگوں سے خریدی ہے، بہت کم ہے، جبکہ باقی تمام زمینیں اہلیان شلوزان ہی کی ہیں، لیکن مقامی حکومتوں نے وقتاً فوقتاً اپنی من مانی کا ثبوت دیتے ہوئے کافی ناانصافیوں کا ثبوت دیا ہے۔ انہوں نے نہ فقط بزور طاقت غیر داخل کار منگلوں حتٰی غیر مقامی وزیر قبائل کو بھی بسانے کی کوششیں کیں، بلکہ اہلیان خیواص کو بھی آبادکاری سے روکنے کے منصوبے بنائے گئے، لیکن علاقے کی بعض موثر تنظیموں اور سیاسی شخصیات نے ان تمام منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔
 
خصوصاً تحریک حسینی کے سربراہ علامہ سید عابد الحسینی مقامی متعصب انتظامیہ کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹے رہے، اس وقت خیواص میں علامہ سید عابد الحسینی اور تحریک حسینی کے تعاون سے آباد کاری کا عمل جاری ہے، تمام علاقے اور گھر گھر تک روڈ کی تعمیر کے لئے بلڈوزر کام کر رہے ہیں، اس کے علاوہ مکانات کی تعمیر میں بھی متاثرین کے ساتھ تعاون کیا جا رہا ہے۔ اسلام ٹائمز کی تین رکنی ٹیم نے دورہ کرکے علاقے کا تفصیلی جائزہ لیا، اور متاثرین کے تاثرات بھی نوٹ کئے۔ 

متاثرین کی بحالی کے لئے اور کام کی نگرانی کا فریضہ تحریک حسینی نے محمد تقی اور ولی اللہ کو سونپ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ سارا علاقہ پہاڑی ہے، لوگوں کے لئے ایک بڑا مسئلہ اپنے گھر تک راستے کی فراہمی ہے۔ چنانچہ بلڈوزر کام کررہے ہیں اور جہاں بھی مکان کی تعمیر ہونی ہو، وہاں تک سب سے پہلے سڑک ممکن بنائی جائے گی اس کے بعد گھر کے لئے جگہ ہموار کی جائے گی۔
علاقے کے لوگوں سے پوچھا گیا، تو انہوں نے تحریک حسینی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہاں ہمارے لئے کوئی مشکل نہیں، تحریک حسینی ہمارے ساتھ سیاسی، اخلاقی اور مالی لحاظ سے بھرپور طریقے سے تعاون کررہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 334990
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش