QR CodeQR Code

گلگت بلتستان میں فرقہ واریت کے اسباب اور راہ حل!

31 Dec 2013 20:18

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان جغرافیائی حوالے سے نہایت اہم خطہ تصور ہوتا ہے جس کی حدود بھارت، افغانستان، تاجکستان اور عوامی جمہوریہ چین سے ملتی ہیں۔ نیز گلگت بلتستان کا شمار دنیا کے بلند ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے گلگت بلتستان جیسا خطہ عالمی طاقتوں کی نظروں سے اوجھل نہیں رہ سکتا ہے۔ جغرافیائی اہمیت کا حامل ہونے کی وجہ سے بیرونی ہاتھ فرقہ وارانہ کشیدگی کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے۔


ترتیب و تنظیم: ایس ٹی ایم کاظمی

آئے روز دہشتگردی کے واقعات، گلگت بلتستان کے عوام مذہبی رسومات بھی خوف کے سائے میں منانے لگے ہیں، حکومت کی ناقص کارکردگی، عوام کے جان ومال کا تحفظ نہ ہونے کے باعث گلگت بلتستان کے عوام مذہبی رسومات چاہے محرم ہو یا چہلم کا دن، یوم حسین (ع) ہو یا عید میلاد النبی (ص)، نوروز کا دن ہو یا سالگرہ، یا کوئی اور مقدس دن، ان تمام مذہبی رسوم کو مناتے وقت بھی خوف نے گلگت بلتستان کے عوام کا پیچھا نہ چھوڑا، تاریخ میں دنیائے عالم کے لئے امن و امان کا نمونہ گلگت بلتستان کے عوام ہر لمحہ اور ہر خوشی خوف کے سائے میں منانے لگے اور حکومت ایسے موقعوں پر سوائے رحمٰن ملک کا فارمولہ "موبائل نیٹ ورک بند کرو " پر عمل کرنے کے علاوہ کچھ نہ کر سکی جس کی حالیہ واضح مثال چہلم کا دن ہے، اس دن بھی پاکستان بھر کی طرح گلگت بلتستان حکومت بھی دہشت گردی کے واقعات کے خوف سے سوائے موبائل نیٹ ورک بند کرنے کے کچھ نہ کر سکی، ایسے میں گلگت بلتستان کے شہری منہ میں انگلی ڈال کر اس حسرت میں رہنے لگے کہ کاش خطے میں کب امن و امان کا ایک بار پھر بول بالا ہو گا اور زندگی خوف کے سائے سے نکل کر ایک بار پھر امن کے مہربان سائے میں ڈھل جائے گی لیکن دوسرے لمحے ہی عوام کی یہ تمنا ارمان میں تبدیل ہو جاتی ہے کیونکہ جو حکومت گذشتہ 4سالوں سے عوام کو مسائل کے چنگل سے نہ نکال سکی وہ کیا خاک امن و امان بحال کر ے گی۔

گلگت بلتستان میں فرقہ واریت کے بہت سے اسباب ہیں جن میں سے چند ایک یہاں ذکر کیا جا رہا ہے۔
جغرافیائی اہمیت: گلگت بلتستان جغرافیائی حوالے سے نہایت اہم خطہ تصور ہوتا ہے جس کی حدود بھارت، افغانستان، تاجکستان اور عوامی جمہوریہ چین سے ملتی ہیں۔ نیز گلگت بلتستان کا شمار دنیا کے بلند ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے گلگت بلتستان جیسا خطہ عالمی طاقتوں کی نظروں سے اوجھل نہیں رہ سکتا ہے۔ جغرافیائی اہمیت کا حامل ہونے کی وجہ سے بیرونی ہاتھ فرقہ وارانہ کشیدگی کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے۔
وسائل کی بہتات: گلگت بلتستان جغرافیائی اہمیت کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل سے مالامال خطہ تصور ہوتا ہے۔ پوری دنیا کو توانائی کے بحران کاسامنا ہے جبکہ گلگت بلتستان میں توانائی کی پیداواری صلاحیت سب سے زیادہ ہے۔ معدنیات ٹورازم اور جنگلات کی بہتات ہے۔ گلگت بلتستان دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں انسان کی زندگی سہل اور آسان بنانے والے وسائل موجود ہیں۔ اس خطے میں بسنے والے وسائل کے خزانوں کے اوپر آباد ہیں لیکن وسائل کے ناجائز حصول کی خاطر بےپناہ اہمیت کے حامل خطے میں چند عاقبت نااندیش عناصر امن و سکون کو تہہ و بالا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
ذاتی مفادات: وسائل کا ناجائز حصول اور ذاتی مفادات کے تحفظ کا آسان ترین ذریعہ مسلکی چھتری قرار پائی ہے۔ وسائل کے حصول کا آسان ترین ذریعہ تلاش کرنا فطرت انسانی ہے۔ اسی طرح ناجائز مفادات کے تحفظ کا آسان ترین ذریعہ تلاش کرنا بھی فطرت انسانی ہے۔ گلگت بلتستان واحد خطہ ہے جہاں وسائل کے ناجائز حصول کا آسان ذریعہ اور ناجائز ذاتی مفادات کے تحفظ کا ذریعہ فرقہ واریت بنایا گیا۔ میرٹ، اہلیت کی بنیاد پر وسائل کے حصول کا concept ناپید ہو چکا ہے ۔ ملازمت، ٹھیکہ، ناجائز سرکاری وسائل کے حصول کیلئے مسلکی کارڈ کا استعمال شرعی فریضہ قرار پایا ہے، نیز ہر شخص اپنے انفرادی و ذاتی مفادات کے تحفظ کیلئے مسلکی کارڈ کے استعمال کو اپنا جائز شرعی اسلامی و قانونی حق تصور کرتا ہے۔
پروپیگنڈہ: علاقے میں مسلکی جذبات ابھارنے اور فرقہ وارانہ نفرتیں پھیلانے کیلئے باضابطہ طور پر پروپیگنڈہ مہم جاری و ساری ہے۔ ایسے نیٹ ورکس قائم کئے گئے ہیں جو مسلکی جذبات پر مبنی پروپیگنڈوں کے ذریعے نفرتیں اور مایوسیاں پھیلانا شرعی فریضہ تصور کرتے ہیں۔ سرکاری اداروں کو ریاست کی ملکیت تصور کرنے کی بجائے مسلکی ملکیت قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایک طبقہ ریاست کے ایک ادارے کو مسترد کرتا ہے تو دوسرا طبقہ ریاست کے دوسرے ادارے کو اپنے مسلک کے خلاف قرار دیتا ہے۔ عدالتوں کے ججوں کو قاضی تصور کرنے کے بجائے مسلک کا نمائندہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سرکاری ملازمین، ریاست کی ملکیت تصور کرنے کی بجائے مسلکی نمائندے قرار دہئے جاتے ہیں۔ اس طرح ریاست کے تمام اداروں سے مسلک کی نمائندگی کا مطالبہ ہوتا ہے۔
خاموش اکثریت: گلگت بلتتستان میں بسنے والے 20لاکھ عوام عرصہ 20سال سے فرقہ وارانہ کشیدگی کا شکار رہے ہیں۔ آئے روز دہشتگردی کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ ہمیشہ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ ایسے افراد کو بنایا جاتا ہے جو امن پسند شہری ہوتے ہیں، جو حکومت پر بھروسہ کرکے گھر سے باہر نکلتے ہیں۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کی وجہ سے خطے میں آباد تمام آبادی متاثر ہوتی ہے لیکن اکثریت ہمیشہ خاموش تماشائی بننے کو ترجیح دیتی ہے۔ اکثریتی آبادی کی خاموشی سے فائدہ اٹھا کر فرقہ پرست عناصر اپنے تنظیمی نظم و نسق کے ذریعے فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے میں کامیاب رہتے ہیں جس کی وجہ سے کشیدگی برقرار رہتی ہے۔
بے روزگاری: گلگت بلتستان میں بے روزگار کے ذرائع انتہائی محدود ہو چکے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر کی عدم دستیابی کی وجہ سے سرکاری ملازمت کے علاوہ روزگار کا کوئی دیگر ذریعہ موجود نہیں ہے۔ اس طرح بےروزگار طبقے کو چند شرپسند عناصر اپنے مذموم مقاصد کے حصول کی خاطر ناجائز طور پر استعمال کرتے ہیں۔
طاقت کا استعمال تحفظ کی ضمانت: جیسا کہ بھارت اور پاکستان عرصہ 52سال سے طاقت کے حصول اور استعمال کو ملکی تحفظ کا ضامن قرار دے کر وسائل کو ملکی دفاع پر خرچ کرتے رہے ہیں اس طرح گلگت بلتستان کے خطے میں عوام کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ خطے میں زندگی گزارنے کا واحد راستہ طاقت کے استعمال سے ہی ممکن ہے۔ گلگت میں طاقت کا استعمال ہم مسلک افراد کے تحفظ کا ضامن قرار دیا گیا ہے۔ انڈیا پاکستان متعدد جنگیں لڑنے کے بعد مذاکرات شروع کر چکے ہیں لیکن گلگت بلتستان میں قیام امن کی خاطر مذاکرات کو شجرہ ممنوعہ قرار دے کر علاقے میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو برقرار رکھا گیا ہے۔
اعتماد کا فقدان: عرصہ دراز سے جاری فرقہ وارانہ کشیدگی کی وجہ سے علاقے میں بسنے والے افراد کے درمیان دوریاں پیدا ہو چکی ہیں۔ نوگو ایریاز وجود میں آ چکے ہیں۔ گلگت کا معاشرہ فرقہ وارانہ تقسیم کے عمل سے گزرا ہے نیز سرکاری اداروں کے خلاف آئے روز نت نئے الزامات عائد کئے جاتے ہیں۔ عوامی حلقوں میں سرکاری اداروں پر عدم اعتماد کی فضاء قائم کی گئی ہے۔ حکومت، انتظامیہ، سکیورٹی فورسز، عدلیہ، پولیس الغرض تمام اداروں کو متنازعہ بنا کر پیش کیا گیا ہے تاکہ فرقہ پرستی میں ہی اپنی بقاء تصور کریں۔
قانون کی عمل داری: گلگت بلتستان دنیا میں واحد بدقسمت خطہ ہے جہاں پر قانون کی عملداری نظر نہیں آتی ہے۔ کوئی بھی شخص جس طرح چاہے قانون کی خلاف ورزی کرے مسلکی چھتری کا سہارا لے کر قانون کی گرفت سے باآسانی بچ سکتا ہے۔ اس بدقسمت خطے میں مسلکی چھتری کے سہارے قانون کی خلاف ورزی کو مسلک کے لئے قربانی قرار دے کر متعلقہ فرد کو تمام رعایتیں اور آسائشیں فراہم کی جاتی ہیں۔ گلگت بلتستان کے معاشرے میں قانونی ذرائع سے انصاف کے حصول کا رواج غیر مقبول تصور ہوتا ہے۔ شہریوں کو کھلے عام قانون کو ہاتھ میں لینے کی تبلیغ و تربیت دی جاتی ہے۔ قانون کی عملداری صرف مخالف طبقے پر واجب قرار دی جاتی ہے اور ہم مسلک افراد کے جذبات کو ابھار کر قانون کی عملداری کے خلاف اکسایا جاتا ہے۔ الغرض بہت سارے دیگر اسباب بھی ہیں جن کی وجہ سے گلگت بلتستان کے معاشرے میں فرقہ واریت کی جڑیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہیں، نتیجتاً عوام کی اکثریت فرقہ وارانہ کشیدگی کے مصائب کو برداشت کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔

مستقل قیام امن کیلئے  درج ذیل اقدامات اٹھانا انتہائی ناگزیر ہو چکا ہے:
امن پالیسی: سال 2009ء میں داخلی خودمختاری پر مبنی گلگت بلتستان کے عوامی منتخب نمائندوں کی حکومت قائم ہوئی۔ پاکستان پیپلزپارٹی کو گلگت بلتستان کے عوام نے دو تہائی اکثریت فراہم کی۔ اکثریتی جماعت ہونے کے باوجود مسلم لیگ ق، جمعیت علماء اسلام کے ساتھ اتحادی حکومت قائم لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان کی حکومت چار سال کا عرصہ گزارنے کے باوجود بھی مستقل بنیادوں پر قیام امن کے حوالے سے باضابطہ پالیسی کا اعلان کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ قیام امن کے حوالے سے حکومت گلگت بلتستان کی جانب سے واضح پالیسی کا اعلان نہ ہونے کی وجہ سے ہر ادارہ اڈہاک ازم کی پالیسی کو جاری رکھے ہوئے ہے، امن فارمولے اتنے زیادہ بیان کئے جاتے ہیں کہ قیام امن کیلئے متفقہ پالیسی کا اجراء ناممکن نظر آتا ہے۔ گلگت بلتستان کی سطح پر تمام سٹیک ہولڈرز کو قیام امن کیلئے خالص امن پالیسی پر متفق ہونا لازمی ہے۔ جب تک حکومت صوبائی سطح پر قیام امن کے حوالے سے باضابطہ پالیسی کا اعلان نہیں کرتی جس میں علماء کرام سیاست و سرکاری اداروں، سیاسی جماعتیں، دینی جماعتیں، مذہبی تنظیموں کا رول متعین نہ کیا جائے، قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ہے۔ الغرض قیام امن کیلئے امن پالیسی کا اعلان اور اس پر عملدرآمد سے ہی قیام امن مستقل بنیادوں پر ممکن ہے۔
رٹ آف گورنمنٹ: قیام امن کیلئے حکومت کی رٹ کی بحالی اور قانون کی عملداری وقت کی اشد ضرورت ہے۔ گلگت بلتستان میں قانون کی عملداری کا موجودہ نقشہ کچھ ایسا ہے۔
“Law is spider’s web from where big flies get through and small one, get caught!”
مطلب یہ کہ قانون کی عملداری گلگت بلتستان میں صرف غریب کیلئے مختص نظر آتی ہے۔ گلگت بلتستان کے معاشرے میں قانون کی عملداری طاقتور کے خلاف نظر نہیں آتی ہے۔ خطے بھر میں رٹ آف گورنمنٹ کو بحال کرنے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے ہر فرد کو اس کے حدود کے اندر محدود رکھنے کی ضرورت ہے۔
علماءکرام کا سیاسی کردار: گلگت بلتستان واحد خطہ ہے جہاں  علماءکرام کا معاشرے میں گہرا اثر و نفوذ ہے اور علماء اپنے سیاسی کردار کی ادائیگی لازمی تصور کرتے ہیں۔ سیاسی جماعت کے طور پر کام کرنے کا اختیار ہر طبقے کو حاصل ہے لیکن علماء کرام سیاسی جماعتوں کے ذریعے سیاسی نظام میں سیاسی کردار ادا کرنے کی بجائے غیر سیاسی انداز میں سیاسی امور انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر علاقے میں موجود علماء کرام سیاسی امور میں دلچسپی رکھنا چاہتے ہیں تو پورے خطے کے مشترکہ مفادات، معاملات اور مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کریں۔ صرف مسلکی بنیادوں پر سیاسی امور کی انجام دہی کا لازمی انجام فرقہ واریت اور نفرتیں ہوتی ہیں۔ موجودہ وقت تک گلگت بلتستان میں بعض علماءکرام دیدہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر علاقائی مشترکہ مفادات کو مسلک کے نام پر تقسیم درتقسیم کرنے میں آلہ کار بنتے رہے ہیں۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کے خاتمے میں علماء کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے جوکہ ان علماء کرام کا عین شرعی فریضہ ہے۔
سیاست دانوں کا کردار: گلگت بلتستان کے تمام سیاست دانوں کو قیام امن کیلئے اپنے اندر تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ ہر سیاسی فرد کا فرض بنتا ہے کہ سیاست محور انسانیت رکھے، مسلک کے نام پر سیاست کا خاتمہ قیام امن کیلئے ضروری ہے۔ اس لئے تمام سیاسی قائدین کو یہ طے کرنا ہو گا کہ خطے میں سیاست صرف سیاسی بنیادوں پر کریں۔

بشکریہ: امجد حسین ایڈووکیٹ، رکن گلگت بلتستان کونسل


خبر کا کوڈ: 336165

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/news/336165/گلگت-بلتستان-میں-فرقہ-واریت-کے-اسباب-اور-راہ-حل

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org