0
Friday 13 Aug 2010 11:38

اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے قیام کے امکانات،پاکستان نے تل ابیب میں کیمپ آفس قائم کر دیا

اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے قیام کے امکانات،پاکستان نے تل ابیب میں کیمپ آفس قائم کر دیا
 اسلام آباد:اسلام ٹائمز-روزنامہ نوائے وقت کے مطابق تازہ ترین پیشرفت کے تحت پاکستان اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں،حکومت پاکستان کے اس اقدام سے اس کے خلاف سنگین قسم کا سیاسی ردعمل سامنے آسکتا ہے۔انتہائی باخبر سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستانی دفتر خارجہ نے تل ابیب میں کیمپ آفس قائم کر دیا ہے اور دونوں جانب سے براہ راست روابط کے قیام کے امکانات پر بات چیت جاری ہے۔اس میں دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک مذہبی جماعت کے سربراہ اور معروف سیاسی رہنما نے اس حوالے سے کلیدی کردار ادا کیا ہے،جس کے نتیجے میں ترکی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر سکتا ہے۔ 
ان ذرائع نے دی نیشن کو بتایا کہ پاکستانی حکام اور ایک مذہبی جماعت کے رہنماﺅں نے حال ہی میں لندن اور پیرس میں اسرائیلی حکام سے ملاقات کی ہے۔تاہم دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے ان رپورٹوں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کے بارے میں پاکستانی پالیسی بالکل واضح ہے اور وہ اسرائیل سے روابط کے لئے کوئی بیک ڈور چینل استعمال نہیں کر رہا۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور اسرائیل دونوں ہی امریکہ کے کلیدی اتحای ہیں اور دونوں میں گرمجوشی پر مبنی تعلقات کے اشارے ملتے ہیں۔ 
یاد رہے کہ عالمی منظر نامہ میں اسرائیل کی پوزیشن کے باعث پاکستانی حکام کئی بار مختلف مواقع پر ماضی میں ملاقاتیں کر چکے ہیں۔2005ء میں اسرائیل کے اس وقت کے وزیر خارجہ سلوان شیلوم سے سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری نے ترکی میں ملاقات کی،جس پر مذہبی حلقوں نے شدید ردعمل ظاہر کیا تھا۔2006ء میں سابق صدر پرویز مشرف نے کہا تھا کہ اگر آزاد فلسطینی ریاست قائم ہو جاتی ہے تو پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے گا۔جنوری 2008ء میں پیرس میں پرویز مشرف نے اسرائیلی وزیر دفاع ایہود بارک سے خفیہ ملاقات کی تھی،جو 20منٹ تک جاری رہی تھی اور اب ایک مذہبی جماعت کے سربراہ دونوں ممالک کو قریب لانے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ 
مبصرین کی رائے میں ترکی کے بعد اب پاکستان بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام کی جانب غور کر رہا ہے۔پہلے رسمی طور پر تسلیم کیا جائے گا،اور پھر مکمل سفارتی تعلقات قائم ہو سکتے ہیں۔ان مبصرین کی رائے میں پالیسی کی اس تبدیلی سے پاکستان فوری طور پر دو فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے،ایک تو پاکستان کو اعتدال پسند ثابت کرنا،دوسری اور بڑی اہم وجہ کا تعلق پاکستان کی دفاعی پالیسی اور ہتھیاروں کی ضروریات کو اس سے ہم آہنگ کرنا ہے۔پاکستان اب تک اپنی سلامتی کے لئے امریکی ہتھیاروں پر انحصار کرتا چلا آ رہا ہے اور اسرائیل کو تسلیم کرنے سے وہ اس ایلیٹ کلب میں شامل ہونے کا موقع حاصل کر سکتا ہے،جس میں اس وقت امریکہ،بھارت اور اسرائیل شامل ہیں۔
خبر کا کوڈ : 33976
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش