1
0
Sunday 12 Jan 2014 17:00

شہید اعتزاز تجھے سلام

شہید اعتزاز تجھے سلام
تحریر: محمد مہدی

ہنگو کے علاقے ابراہیم زئی سے تعلق رکھنے والے نویں جماعت کے طالبعلم اعتزاز حسن نے بے مثال قربانی پیش کرکے دنیا بھر میں اپنا لوہا منوا لیا ہے، 6 جنوری کی صبح کو خودکش بمبار کو اسکول کے گیٹ پر روکنے والے اعتزاز کے ذہن میں ہی نہیں تھا کہ وہ جس کام کو آج کرنے جا رہا ہے، اسے اس کے اعتراف میں اس حد تک پذیرائی ملے گی کہ پاکستان کیا، دنیا بھر میں اس کی عظیم قربانی کے چرچے سنے جائیں گے اور خراج تحسین پیش کیا جائیگا۔ ہنگو کے اس 15سالہ نوجوان نے جرات و دلیری کی وہ مثال قائم کر دی کہ آج پاکستان کے ہر سکول میں ''اعتزاز تجھے سلام'' کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر جس انداز میں اس عظیم فرزند کو جو خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے اس کے پیش نظر پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) میں بھی اعتزاز کی قربانی کو تحسین پیش کرنے کیلئے متفقہ قرارداد منظور کی گئی۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس طالب علم کو نشانِ حیدر دینے کا مطالبہ کیا گیا، یوں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اعتزاز حسن کو ستارہ شجاعت دینے کی سفارش کر دی، صدر مملکت کی منظوری کے بعد اسے یہ اعزاز حاصل ہو جائیگا۔

اعتزاز حسن 6 جنوری کی صبح آٹھ بجے اپنے دیگر دوستوں کے ہمراہ سکول جارہا تھا کہ اسے راستے میں ایک اجنبی شخص اپنے سکول کی طرف بڑھتا ہوا محسوس ہوا، اعتزاز نے بھانپ لیا کہ جو شخص اس کے اسکول کی طرف بڑھ رہا ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ ایک دہشتگرد ہے، اس نے اپنے دیگر ساتھیوں کو کہا کہ یہ شخص دہشتگرد ہے جو ہمارے اسکول کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے، اس وقت اسکول کے اندر اسمبلی جاری تھی، مقامی میڈیا کے مطابق 800 کے لگ بھگ طلبہ اسمبلی میں موجود تھے، اعتزاز نے اپنے دیگر ساتھیوں سے کہا کہ آپ روکو میں اسے روکنے کی کوشش کرتا ہوں، ساتھیوں نے منع کیا کہ اعتزاز مت جاو، یہ دہشتگرد ہے جو تمہیں بھی مار دیگا، لیکن جب جذبہ دیگر ساتھیوں اور اساتذہ کی زندگیوں کو بچانا تھا تو یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ اعتزاز کے قدم ڈگمگا جاتے یا اس کے ارادے میں لغزش آجاتی، اعتزاز نے تیزی کیساتھ جاکر اس خودکش بمبار کو دبوچ لیا، جب خودکش بمبار نے اعتزاز کے ہاتھوں اپنے آپ کو بے بس محسوس کیا اور سوچ لیا کہ وہ اپنے ہدف تک نہیں پہنچ سکتا تو اس نے خود کو وہی پر ہی اڑا لیا، یوں اس دھماکہ میں اعتزاز شہید ہوگیا۔

اعتزاز امر ہوگیا ہے، اس نے اپنی ماں کی مسکراہٹ تو چھین لی ہے لیکن سینکڑوں دیگر ماؤں کی مسکراہٹیں جانے سے روک لیں ہیں، اس نے اپنا گھر تو ویران کر دیا، لیکن دیگر گھروں کے چراغ ہمیشہ کیلئے گل ہونے سے بچا لئے، اس عظیم طالب علم کی قربانی کو چار دن تک قومی میڈیا نے نہیں اٹھایا، لیکن جب یہ معاملہ لوکل میڈیا سے نکل کر سوشل میڈیا پر آنے لگا تو اچانک قومی میڈیا کے ساتھ ساتھ بین الاقومی میڈیا پر بھی اعتزاز کی قربانی کی قدردانی کی جانے لگی، اعتزاز کے کزن مدثر بنگش نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوا کہا کہ ''اگر ہم اپنے ہیروز کی قدر نہیں کرینگے تو ہماری نسلوں کو کیسے پتہ چلے گا کہ ہیروز کون ہوتے ہیں۔'' مدثر کی اس بات نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، لیکن بیدار نہ ہوئے تو نئی نسل کے قائدین بیدار نہ ہوئے، تحریک انصاف جو حکیم اللہ محسود کے قتل پر تو فوری ایکشن میں دکھائی دی، لیکن اس عظیم قومی ہیرو کی قربانی پر کپتان سمیت اس کی حکومت کے کسی وزیر کو تادم تحریر فرصت نصیب نہیں ہوئی کہ وہ جاکر اعتزاز کے گھر والوں سے ملتا اور انہیں خراج تحسین پیش کرتا، ہاں البتہ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی طرف سے فوجی دستوں نے قومی ہیرو کی قبر پر حاضری دی، چوک و چوبند دستے نے سلامی دی اور آرمی چیف کی طرف سے اس عظیم شہید کو سلام عقیدت پیش کیا۔

موجودہ صورتحال کو دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ سیاست دانوں سے قوم کی امیدیں ختم ہوتی جا رہی ہیں، خاص طور پر نئی قیادت کے دعویدار عمران خان سے جو تبدیلی کا نعرہ لیکر قوم میں اِن ہوئے تھے، حکمرانوں کے دہرے معیار نے عوام کو بیحد مایوس کیا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا افسوس ناک صورتحال ہمارے سامنے آسکتی ہے کہ میجر جنرل نیازی شہید ہوئے اور طالبان نے اس کی فوری ذمہ داری قبول کی، لیکن نہ تو وفاقی حکومت نے طالبان کی مذمت کی اور نہ ہی تحریک انصاف اور دیوبندی جماعتوں کی طرف سے طالبان کے اس اقدام کی نفی کی گئی۔ اسی طرح حالیہ واقعات کو ہی لے لیں، جن کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی ہے، سی آئی ڈی آفیسر چوہدری اسلم کا قتل ہو یا اعتزاز کی شہادت دونوں واقعات طالبان نے کرائے اور ان کی ذمہ داری بھی قبول کی، لیکن مذکورہ جماعتوں اور ان کے رہنماؤں نے ان کی مذمت نہیں کی۔ 
طالبان کی جانب سے چن چن کر فوجی جوانوں، پولیس افسروں اور سویلیز کو شہید کیا جا رہا ہے، اسکولوں کے دروازے طلبہ کیلئے بند کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، لیکن قومی سطح پر ایک آواز دکھائی نہیں دیتی۔ کیا اس صورتحال میں ہم حالت جنگ سے نکل سکتے ہیں، اسکا جواب نفی میں ہے۔ اعتزاز دہشتگرد کے مقابلہ میں چند سیکنڈوں میں فیصلہ کرکے امر ہوگیا اور ہماری حکومتیں اور سیاسی جماعتیں اس جنگ میں ہزاروں افراد قربان کرنے کے باجود بھی کفیوژ ہیں۔
خبر کا کوڈ : 340355
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

such mein is pur iman dill ko salam ho. khuda un k darajat izafa karein.inshaallah
ہماری پیشکش