QR CodeQR Code

کیا نواز شریف امن و امان قائم رکھ سکیں گے، واشنگٹن پوسٹ

16 Jan 2014 11:11

اسلام ٹائمز: اخبار لکھتا ہے کہ پاکستان کی 66سالہ تاریخ میں شیعہ اور سنی فرقوں کے درمیان کشیدگی بہت کم تھی۔ محمد علی جناح نے رواداری پر زور دیا تھا۔ لیکن 80ء کی دہائی سے ایسے واقعات میں اضافہ ہوا۔ نقاب پوش مسلح افراد ایک فرقے کے ڈاکٹروں، وکلاء، تاجر اور کالج پروفیسروں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ اسی طرح صوفیانہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمان بھی ایسے حملوں کی زد میں ہیں۔


اسلام ٹائمز۔ امریکی اخبار ”واشنگٹن پوسٹ“ لکھتا ہے کہ فرقہ واریت کے پرتشدد واقعات اور ہلاکتوں میں اضافے سے پاکستان کے استحکام کے بارے نئے خدشات نے سر اٹھا لیا ہے۔ بڑے شہروں میں مختلف فرقوں کے خلاف تشدد اور پروفیشنلز کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ انتہا پسند چاہتے ہیں کہ تعلیم یافتہ اور بہترین اذہان کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا جائے۔ یہ بحران ایسے نازک موقع پر جنم لے رہا ہے جب نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلاء ہونے جا رہا ہے اور امریکی رہنما توقع کر رہے ہیں کہ پاکستان رواں برس علاقائی استحکام برقرار رکھنے میں مدد کر سکتا ہے۔ تاہم مبصرین کے نزدیک پاکستان میں کسی بھی قسم کی فرقہ وارانہ کشیدگی افغانستان میں آسانی سے داخل ہو سکتی ہے جہاں مذہبی اور نسلی دشمنیاں پہلے ہی پیچ و تاب کی حالت میں ہیں۔ گذشتہ برس 687فرقہ وارانہ ہلاکتیں ہوئیں جو 2012ء سے 22فی صد زیادہ تھیں۔ گذشتہ برس پرتشدد اور دہشت گردی کے واقعات میں 4725ہلاکتیں ہوئیں۔ ملک بھر میں فرقہ وارانہ بدامنی تسلسل کے ساتھ پھیل رہی۔

اخبار لکھتا ہے کہ پاکستان فرقہ وارانہ کشیدگی کے باوجود ایسے بحران سے بڑی حد تک محفوظ ہے جس طرح عراق اور شام ڈوب ہیں۔ لیکن تجزیہ کار اور کچھ پاکستانی سیاسی رہنما یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف 18کروڑ کے جوہری ملک میں امن و امان برقرار رکھ سکیں گے۔ فرقہ وارانہ کشیدگی نہ صرف کسی دہشت گردی کے واقعات کے بعد پیدا ہوتی ہے بلکہ مختلف فرقوں میں جھڑپیں بھی معمول بنتی جا رہی ہیں۔ 

امریکی تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ مغربی حکام اور انسانی حقوق گروپ ابھی تک واضح سگنل کے منتظر ہیں کہ نواز شریف مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر کو دبانے کے قابل ہو جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ فرقہ واریت کی یہ لہر تیزی پکڑے گی۔ ایک ایشیائی تھنک ٹینک کے مطابق 1989ء کے بعد سے سب سے زیادہ فرقہ واریت سے ہلاکتیں گذشتہ برس ہوئیں۔ گذشتہ دو برسوں میں پانچ پانچ سو افراد ہلاک کر دیئے گئے۔ گذشتہ برس راولپنڈی واقعے سے فرقہ ورانہ تشدد میں اضافہ ہوا۔ 

وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ کسی کو بھی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ پاکستان کو غیر مستحکم کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے فرقہ وارانہ گروپوں کے خلاف کریک ڈاوٴن شروع کیا ہے اور کراچی میں عسکریت پسندوں کے خلاف چھاپے بھی مارے جا رہے ہیں۔ اخبار لکھتا ہے کہ پاکستان کی 66سالہ تاریخ میں شیعہ اور سنی فرقوں کے درمیان کشیدگی بہت کم تھی۔ محمد علی جناح نے رواداری پر زور دیا تھا۔ لیکن 80ء کی دہائی سے ایسے واقعات میں اضافہ ہوا۔ 

پاکستانی حکام کے مطابق نائن الیون واقعے کے بعد فرقہ واریت نے کشیدہ صورت اختیار کی۔ افغانستان میں طالبان حکومت ختم ہوئی اور ان جنگجووٴں نے پاکستان کا رخ کیا۔ سرحدیں کمزور ہوئیں اور سیکڑوں لوگوں نے کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں پناہ لی۔ نقاب پوش مسلح افراد ایک فرقے کے ڈاکٹروں، وکلاء، تاجر اور کالج پروفیسروں  کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ ہنگو میں اسکول کو خودکش بمبار نشانہ بنانا چاہتا تھا جسے ایک نویں جماعت کے طالب علم اعتزاز حسن نے جان دے کر ناکام بنا دیا، آج اسے قومی ہیرو کا درجہ دیا جا رہا ہے۔ اسی طرح صوفیانہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمان بھی ایسے حملوں کی زد میں ہیں۔ کراچی میں ایک مزار پر چھ مزدوروں کا قتل کیا گیا جس میں مزاروں پر نہ آنے کا کیلئے خبردار کرنے کا ایک پیغام بھی چھوڑا گیا، طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ بڑے شہروں میں پروفیسرز ،ڈاکٹرز اور دانشوروں کو قتل کیا گیا، ان تمام کو ایک مخصوص فرقے سے تعلق رکھنے کی بنا پر قتل کیا گیا۔


خبر کا کوڈ: 341601

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/news/341601/کیا-نواز-شریف-امن-امان-قائم-رکھ-سکیں-گے-واشنگٹن-پوسٹ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org