0
Saturday 18 Jan 2014 22:02

امن و امان کی خراب صورتحال، اراکین بلوچستان اسمبلی پریشان!

امن و امان کی خراب صورتحال، اراکین بلوچستان اسمبلی پریشان!

اسلام ٹائمز۔ بلوچستان اسمبلی نے امن و امان، ایف سی کے رویئے اور نواب ارباب عبدالظاہر کاسی کے اغواء سے متعلق تحاریک التواء پر بحث مکمل کرلی۔ ہفتے کو بحث میں حصہ لیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے غلام دستگیر بادینی نے کہا کہ امن و امان کی صورتحال اور خاص طور پر اغواء برائے تاوان کا مسئلہ انتہائی اہم ہے۔ قومی شاہراہوں پر امن و امان کی صورتحال بھی بہتر نہیں۔ جس کی وجہ ہائی وے پولیس کا نہ ہونا ہے، لیویز اور پولیس کی تربیت کی جائے اور سرحدی تجارت کو فروغ دیا جائے کیونکہ بےروزگاری بھی امن و امان کی خرابی کی ایک وجہ ہے۔ اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے کہا کہ امن ہر انسان کی ضرورت ہے۔ ہمیں روایتی بحث و مباحثے سے نکل کر کام کرنا ہو گا۔ عوام نے ہمیں یہاں منتخب کرکے بھیجا ہے۔ جس کا ایک مقصد اللہ کے نظام کو نافذ کرنا ہے۔ جو قیام پاکستان کا بھی مقصد تھا۔ انہوں نے کہا کہ جب لوگوں کو حق نہیں ملتا تو وہ مجبوراً دوسرا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ جب تک بنگلہ دیش ہمارا حصہ تھا تو وسائل رقبے کی بنیاد پر اور اس کے بعد آبادی کی بنیاد پر تقسیم ہونا شروع ہوئے۔ آئین کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق قانون سازی ہونا تھی، وہ بھی نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ 65 سال کی ناانصافیوں کا ازالہ ایک دن میں نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب تک حقوق نہیں دیئے جاتے تب تک کوئی بھی مزاحمت کاروں کو مذاکرات کی میز پر نہیں لا سکتا۔ موجودہ حکومت کو چھ ماہ ہو چکے۔ اغواء برائے تاوان، لاپتہ افراد کی عدم بازیابی اور مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیراعلٰی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے چھ ماہ قبل جو وعدے کئے تھے۔ آج ان سے انحراف کر رہے ہیں۔ پی ایس ڈی پی میں تمام ارکان کو شریک کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے جو ناانصافی ہے۔

اس موقع پر پرنس احمد علی نے کہا کہ دیکھنا ہوگا کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال کیوں خراب ہوئی۔ اغواء برائے تاوان کا مسئلہ اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک جانب تو مزاحمت کار اور دوسری جانب جرائم پیشہ عناصر ہیں۔ مزاحمت کاروں سے بات ضرور کی جائے۔ مگر جرائم پیشہ عناصر سے سختی سے نمٹا جائے۔ پولیس اور بی سی کی بہتر تربیت کی جائے۔ صوبائی وزیر شیخ جعفرخان مندوخیل نے کہا کہ ہمارا امن و امان کامسئلہ افغان مہاجرین کی آمد کے بعد پیدا ہوا۔ دوسری جانب جو لوگ گیس بجلی کی تنصیبات کو اڑاتے ہیں، وہ بھی بلوچستان کے عوام کے خیرخواہ نہیں کیونکہ اس طرح سے بلوچستان کے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت کو اپنی رٹ قائم کرنی چاہیئے۔ آج جن سے مذاکرات کی بات ہو رہی ہے، ماضی میں وہ خود اس اسمبلی کا حصہ رہے۔ دنیا بھر میں تحریکیں چلتی ہیں مگر کوئی تنصیبات کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ حکومت اغواء برائے تاوان سمیت جرائم پیشہ عناصر اور کالے شیشے والی گاڑیوں کے خلاف سخت کارروائی کرے اور کمشنری نظام کے تحت اختیارات دینے کے بارے میں بھی اقدامات کرے۔ صوبائی وزیر ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ دہشت گردی صرف بندوق سے نہیں بلکہ دوسرے طریقوں سے بھی ہوتی ہے۔ ایم کیو ایم کو اگر مقتدرہ قوتوں کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو وہ کراچی کو یرغمال نہیں بنا سکتی تھی۔ ایم کیو ایم چاہتی ہے کہ کراچی سے پشتون، سندھی، پنجابیوں اور بلوچوں کا خاتمہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ مولانا واسع نے آج یہاں جو باتیں کیں۔ ان کی جماعت ایوب خان، ضیاءالحق اور مشرف کی اسمبلیوں کی باتیں کرتی تو اچھا ہو گا۔

چالیس سال بعد انہیں آج جمہوری اقدار کی یاد آ رہی ہے۔ انہوں نے امن و امان کی صورتحال پر کہا کہ اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہمارے اداروں کی کارکردگی صفر ہو گئی ہے یا پھر انہوں نے آنکھیں بند کر لی ہیں۔ اگر ادارے دلچسپی لیں تو ایک ہفتے میں حالات درست ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو اغواء کرکے شمالی وزیرستان کون لے جاتا ہے۔ زائرین کی بس پورے پنجاب سے ہو کر جب اس صوبے میں پہنچتی ہے تو اسے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسا کرنے والے پشتونوں کو تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ یہاں پر امن قائم ہو۔ مفتی گلاب خان کاکڑ نے کہا کہ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد امن و امان کی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ حکومتی ارکان کی جانب سے حالات کی بہتری کے دعوے حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش ہے۔ پہلے نوجوانوں کی اور اب تو بچوں کی لاشیں مل رہی ہیں۔ ہمیں تلخ گھونٹ پی کرسچ بولنا ہوگا کہ امن و امان کس کی وجہ سے خراب ہوا۔ جمعیت علماء اسلام کی حسن بانو نے کہا کہ جہاں انصاف نہ ہو وہاں امن نہیں ہوتا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی تنخواہوں میں اضافہ اور ان کے شہید اہلکاروں کے لواحقین کو معاوضہ دیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) کے میر عاصم کرد گیلو نے کہا کہ بلوچستان میں امن و امان کا مسئلہ افغان اور ایرانی انقلاب کے بعد پیدا ہوا۔ ان انقلابوں سے پہلے چاغی ڈسٹرکٹ میں قتل کا ایک مقدمہ بھی درج نہیں ہوا۔ گردی جنگل کیمپ بننے کے بعد پورا علاقہ جرائم کی آماجگاہ بن گیا۔ نواب کاسی، ڈاکٹر مناف، عبیداللہ بابت کے بھائی اور دوسرے لوگوں اور ڈاکٹروں کو اغواء کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ایک سازش کے تحت اس سرزمین کے فرزندوں کو اغواء کیا جا رہا ہے۔ اکثر اوقات قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ایک واقعے سے ڈاکٹر عبدالمالک کو آگاہ کر چکا ہوں۔ ہماری خواہش ہے کہ بلوچستان میں امن قائم ہو۔ صوبائی وزیر سردار مصطفی خان ترین نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ ہمیں حقیقت پسندی کا ثبوت دینا چاہیئے۔ بعض ارکان نے حقیقت پسندی سے کام نہیں لیا۔ ہمیں سچ بولنا ہوگا۔ اگر ہم حقیقت بیان کریں گے تو امن و امان بہتر ہو گا۔ یہاں کوئی ایران اور کوئی افغانی انقلاب کی باتیں کرتا ہے۔ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں حالات آمریت کی وجہ سے خراب ہوئے۔ پوری دنیا میں انقلاب برپا ہوتے ہیں۔ افغانستان میں بھی انقلاب آیا۔ جنرل ضیاءالحق نے مداخلت کی تو بعض جماعتوں نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ کچھ سیاسی جماعتوں کو تو اسلحہ سپلائی کرنے کا بھی اختیار تھا۔ اس دوران میں اسلحہ اور ڈالر کہاں سے آیا سب کو معلوم ہے۔ سب کی سرپرستی امریکہ کرتا رہا۔ اس وقت پشتونخوامیپ اور قوم پرستوں نے اس کی مخالفت کی۔ ہمارے قائدین جیلوں میں تھے اور یہ لوگ اسلحہ تقسیم کر رہے تھے۔ ہمارے اکابرین کہتے رہے کہ یہ ملک کی بربادی کا کام ہے۔ ہمارے خلاف دیواروں پر نعرے لکھے گئے۔ اس وقت دہشت گردی کی مخالفت کیوں نہیں کی گئی۔ افسوسناک کی بات تو یہ ہے کہ گذشتہ دس پندرہ سال کے دوران خواتین تک کو لوٹا اور اغواء کیا گیا۔

موجودہ حکومت نے چھ ماہ میں اسی فیصد امن قائم کر دیا ہے۔ کوئٹہ چمن شاہراہ جس پر دن میں سفر مشکل تھا اب لوگ رات کو آسانی سے سفر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مولانا عبدالواسع پریس کانفرنس اور بیانات بازی سے گریز کریں۔ مفتی معاذاللہ موسیٰ خیل نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ امن قائم ہو۔ مگر تنقید برائے تنقید بھی درست نہیں اور نہ ہی ماضی کی باتیں کرنا بہتر ہے۔ ہمیں بھی عوام نے ووٹ دیئے ہیں اور ہم بھی عوام کے نمائندے ہیں۔ مگر میرے علاقے میں گذشتہ بیس روز سے ڈپٹی کمشنر تک نہیں۔ وزیراعلٰی کے مشیر خالد لانگو نے کہا کہ سابق دور میں ایک طرف تو مزاحمت کار تھے۔ مگر دوسری طرف سرکاری سرپرستی میں جرائم پیشہ عناصر لوگوں کو لوٹنے، اغواء کرنے میں ملوث تھے۔ اس دور میں بھی بڑے بڑے رہنماء اور قبائلی شخصیات موجود تھیں۔ مگر کسی نے بات نہیں کی۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے طاقتور اداروں سے بھی بات کی۔ اپوزیشن تنقید نہ کرے بلکہ چھ ماہ کے واقعات کا موازنہ کرے۔ ہماری حکومت نے جن کے پاس مختلف اداروں کے کارڈز تھے، ختم کر دیئے۔ منگچر میں وارداتیں عروج پر تھیں مگر گذشتہ چھ ماہ میں وہاں اغواء کا ایک بھی واقعہ نہیں ہوا۔ ثابت کیا جائے تو استعفیٰ دے دوں گا۔ پشتونخوامیپ کے منظور احمد کاکڑ نے کہا کہ اپوزیشن امن و امان کی بات کر رہی ہے۔ کوئٹہ چمن شاہراہ جہاں دن میں لوگ سفر نہیں کرتے تھے۔ اب رات کو بھی وہاں پر لوگ سفر کر رہے ہیں۔ ہم اس شاہراہ کی اس لئے مثال دیتے ہیں کہ ماضی میں اسی شاہراہ پر اراکین قومی اسمبلی، سینیٹرز، صوبائی اسمبلی اور وزراء سفر کرتے تھے۔ مگر امن و امان کی یہ صورتحال نہیں تھی جو موجودہ حکومت کے دور میں بہتر ہوئی ہے۔ کوئی بھی حادثہ ہو تو وزیراعلٰی خود پہنچ کر اظہار ہمدردی کرتے ہیں۔ جبکہ ماضی میں ایسے حادثات کے بعد ٹشو پیپر بھیجنے کی باتیں کی جاتی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ جرائم کی وارداتیں کم ہونے کے باوجود حکومت خاموش نہیں بیٹھی ہے۔ حکومت اور قوم پرست جماعتیں امن قائم کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ حکومت ناراض دوستوں سے بھی بات کر رہی ہے۔ مگر ہم ان سے کہتے ہیں کہ وہ بھی گیس اور بجلی کی تنصیبات کو نقصان نہ پہنچائیں۔ صوبائی وزیر نواب محمد خان شاہوانی نے کہا کہ سابق دورحکومت میں کوئی قومی شاہراہ محفوظ نہیں تھی۔ مگر موجودہ حکومت کی کوششوں سے امن و امان کی حالت بہت بہتر ہوئی ہے۔ حکومت میں آنے سے قبل بھی ہم نے امن و امان کے قیام کیلئے کوششیں کیں۔ جب منگچر، سوراب شاہراہ پر حالات خراب ہوئے تو ہم نے قبائلی جرگہ تشکیل دیا۔ حکومت کے آنے کے بعد بھی جدوجہد کر رہے ہیں اور صورتحال میں واضح بہتری آئی ہے۔ مجلس وحدت مسلمین کے سید محمد رضا کا کہنا تھا کہ جب تک افغانستان کو پانچواں صوبہ سمجھا جاتا رہے گا، تب تک یہاں امن قائم نہیں ہوگا۔ اب تو شام سے بھی لاشیں آ رہی ہیں۔ ہم پر ہر جگہ مداخلت کے الزامات ہیں۔ افغانستان میں نہ تو کل جہاد تھا اور نہ آج ہے۔ اغواء برائے تاوان میں ملوث عناصر لوگوں کو اغواء کرکے چیک پوسٹوں سے گزارتے ہیں۔ مگر کوئی نہیں پکڑا جاتا۔

آغا رضا کا مزید کہنا تھا کہ اگر ملک میں شیعہ سنی کا کوئی مسئلہ ہے تو اس کی سزا صرف ہزارہ قوم کو کیوں دی جا رہی ہے۔ کریٹوں سے شاعری کے اوراق نکلے تو علمدار روڈ کا رخ کیا گیا۔ بسوں میں دھماکوں کے دوران قرآن مجید کے اوراق شہید ہوتے ہیں، وہاں خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اخترآباد دھماکے میں زائرین کو بچانے والے اے ٹی ایف اہلکاروں کو انعام دیا جائے۔ نیشنل پارٹی کے یاسین لہڑی نے کہا کہ امن و امان خراب کرنے میں مختلف قوتیں کار فرما ہیں۔ ایک سازش کے تحت حالات کو خراب کیا گیا۔ مولانا واسع آج جو باتیں کر رہے ہیں کاش حکومت میں رہتے ہوئے یہی باتیں کرتے۔ مسائل راتوں رات پیدا نہیں ہوتے۔ امن و امان کی صورتحال کے دو پہلو ہیں۔ ایک سیاسی اور دوسرا گورننس کا ہے۔ ماضی میں جرائم پیشہ عناصر کو کارڈز دیئے جاتے تھے۔ ہم نے یہ سلسلہ ختم کردیا۔ تمام ارکان اسمبلی کردار ادا کریں تو امن قائم ہو جائے گا۔ جمعیت علماء اسلام کے سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ امن و امان کے مسئلے پر ہم سب کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔ سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ یہاں کمپنیاں آنا چاہتی ہیں، مگر ان پر راکٹوں سے حملے ہوتے ہیں۔ صرف ایف سی یا پولیس کی ذمہ داری نہیں کہ وہ امن قائم کرے۔ جب تک عوام تعاون نہیں کریں گے، امن قائم نہیں ہو گا۔ انہوں نے وزیرداخلہ کی توجہ رکھنی بازار میں لوٹ مار کی جانب مبذول کرائی۔ مسلم لیگ (ن) کی راحیلہ درانی نے کہا کہ کوئی حکومت نہیں چاہے گی کہ اس کے دور میں امن و امان خراب ہو اور لوگ مریں۔ وفاق نے بلوچستان کے مسئلے کے حل کیلئے صوبائی حکومت کو فری ہینڈ دے دیا ہے۔

حکومت اقدامات کرے۔ پولیس کے نظام کو بہتر بنایا اور اس کی ری سٹرکچرنگ کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ بہادر خان وویمن یونیورسٹی میں شہید ہونے والی طالبات کو یاد رکھا جائے۔ صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ سابق دور کے مقابلے میں چھ ماہ کے دوران امن و امان کی صورتحال میں واضح بہتری آئی ہے۔ حکومت کے قیام سے قبل مخلوط جماعتوں کے قائدین محمود خان اچکزئی، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور نواب ثناءاللہ خان زہری نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ صوبے سے کرپشن کا خاتمہ اور گڈگورننس کو یقینی بنایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ امن و امان کے حوالے سے تین مختلف صورتوں کا سامنا تھا۔ ایک جانب مزاحمت کار تھے، تو دوسری جانب فرقہ واریت اور تیسری جانب منظم جرائم کی وارداتیں تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ایمرجنسی کا معاملہ وفاق سے متعلق تھا اور وفاق نے فیصلہ کیا کہ مزاحمت کاروں سے مذاکرات ہوں۔ جس کیلئے صوبائی حکومت اے پی سی بلا رہی ہے۔ جبکہ فرقہ واریت کی وارداتوں پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا ہے۔ ہمیں زیادہ مشکلات کا سامنا جرائم کی منظم وارداتوں کے حوالے سے تھا۔ یہ ایک ایڈمنسٹریٹو مسئلہ تھا مگر ماضی میں اسے بری طرح نظر انداز کیا گیا۔ ادارے کمزور ہو گئے تھے۔ ہم نے لیویز، پولیس سے سیاسی اثر و رسوخ ختم کر دیا اور 15 کا افتتاح کیا۔ لیویز اور پولیس میں ریفارم کے حوالے سے کمیٹی بنا دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایف سی ہمارا ادارہ ہے اور اسے صوبائی حکومت نے اپنی مدد کیلئے بلایا ہے۔ اگر ارکان کے تحفظات ہیں تو ان کیمرہ بریفنگ کا اہتمام کریں گے۔

جس میں آئی جی اور ڈی آئی جی ایف سی کو بھی بلائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں اداروں کے درمیان کوئی رابطہ نہیں تھا۔ مگر اب روزانہ کی بنیاد پر تمام اداروں کے نمائندوں کا اجلاس ہوتا ہے۔ جس میں حکومت بلوچستان کا نمائندہ بھی شریک ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ پرانا اور الجھاء ہوا ہے۔ وائس فار مسنگ پرسنز کہتی ہے کہ لاپتہ افراد کی تعداد ہزاروں ہے۔ جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے قائم کمیشن یہ تعداد پچاس سے ساٹھ کے قریب بتاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ مسئلہ عدالت میں ہے پھر بھی حکومت لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے اقدامات کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے تمام پرمٹ اور راہداریاں ختم کردی ہیں۔ پولیس کو واضح ہدایت دی ہے کہ جو بھی پرمٹ یا راہداری پیش کرے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہو۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر نے پوچھا کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ مزاحمت کاروں کے پاس کیا لے کر جائیں گے۔ تو ہم کہتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالمالک ان کے پاس اٹھارویں ترمیم لے کر جائیں گے۔ بلوچ اور پشتون اکابرین بھی ان کے ساتھ جائیں گے اور ان سے کہیں گے کہ مذاکرات کریں۔ مگر ہم کسی کو رٹ آف دی اسٹیٹ چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ انہوں نے اے ٹی ایف اہلکاروں کی ترقی و انعام اور رکھنی میں ہونے والے واقعے کی تحقیقات کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی بلوچستان میں پولیس اور لیویز کی تنخواہیں پورے ملک سے زیادہ ہیں۔ ہم نے یونیورسٹی کی بچیوں کو نہیں بھلایا۔ ان کے خاندانوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور جہاں تک ہو سکے گا ان کی مدد کرتے رہیں گے۔

انہوں نے منظور کاکڑ سے پیش آنے والے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس سلسلے میں آئی جی ایف سی سے بات کی ہے اور انہوں نے یقین دلایا ہے کہ آئندہ کسی رکن اسمبلی کے ساتھ اس قسم کا کوئی واقعہ پیش نہیں آئے گا۔ انہوں نے بتایا کہ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد جرائم میں واضح طور پر کمی واقع ہوئی ہے۔ جس میں مجموعی طور پر جرائم کی شرح میں 33 فیصد کمی ہوئی ہے۔ قتل کی وارداتوں میں 85 فیصد، اغواء برائے تاوان میں 16 فیصد، گاڑیاں چھیننے میں 14 فیصد، فورسز پر حملے میں 14 فیصد، سیٹلر پر حملوں میں 60 فیصد اور مذہبی دہشت گردی میں 20 سے زائد فیصد کمی واقع ہوئی۔ اسی طرح ہائی ویز ڈکیتیوں میں بھی واضح طور پر کمی واقع ہوئی ہے۔

خبر کا کوڈ : 342581
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش