QR CodeQR Code

کوئٹہ دھرنے کا مکمل احوال!

25 Jan 2014 16:08

اسلام ٹائمز: وزیر داخلہ کی یقین دہانی پر چیئرمین ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی عبدالخالق ہزارہ نے شُہداء کے لواحقین کو اعتماد میں لئے بغیر اسٹیج پر پہنچ کر دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ جس پر دھرنے کے شرکاء نے انکے اس اعلان کو رد کر دیا، چونکہ ہزارہ قوم کی اس نام نہاد سیاسی پارٹی کا کردار اس سے قبل بھی کوئٹہ میں مشکوک رہا ہے، لہذا اسی بناء پر لواحقین و شرکاء نے ان پر اعتماد کرنے سے صاف انکار کر دیا۔


رپورٹ: این ایچ حیدری

منگل کے روز ایران کے بارڈر تفتان سے 50 سے زائد زائرین کو لیکر 3 بسیں کوئٹہ آرہی تھیں کہ مستونگ سے 20 کلو میٹر دور درینگڑھ کے قریب مخالف سمت سے آنے والی گاڑی نے بس کو نشانہ بناتے ہوئے گاڑی بس سے ٹکرا دی۔ جس کے باعث ایک زور دار دھماکہ ہوا اور بس میں آگ لگ گئی۔ دھماکے کے بعد لیویز اہلکاروں نے فائرنگ بھی کی۔ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ اس کی آواز کئی کلومیٹر دور تک سنی گئی اور اس سے ایک بس مکمل طور پر تباہ جبکہ باقی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔ دھماکے سے بس میں سوار 28 زائرین شہید اور بسوں کی حفاظت کیلئے آنیوالی گاڑیوں میں سوار شیعہ جوان، لیویز اہلکاروں، خواتین اور بچوں سمیت 32 افراد زخمی ہوگئے۔ دھماکے کے بعد سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لیکر سرچ آپریشن شروع کر دیا، جبکہ امدادی ٹیموں نے موقع پر پہنچ کر زخمیوں کو سول ہسپتال مستونگ جبکہ شدید زخمی افراد کو کوئٹہ منتقل کر دیا۔ ڈی سی مستونگ کے مطابق بسوں میں 50 کے قریب مسافر سوار تھے۔ سیکرٹری داخلہ اسد گیلانی کے مطابق واقعہ میں 28 افراد شہید جبکہ 32 زائرین زخمی ہوئے ہیں۔ چند سکیورٹی اہلکار بھی زخمی ہوئے۔ دھماکے کے بعد مستونگ اور کوئٹہ کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی اور عملے کو ڈیوٹی پر طلب کر لیا گیا۔ لیویز ذرائع کے مطابق بسوں پر کار کے ذریعے خودکش حملہ کیا گیا۔ جس میں 100 کلو گرام بارودی مواد استعمال کیا گیا تھا۔
 
درایں اثناء صدر مملکت ممنون حسین نے بسوں پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے جاں بحق افراد کے لواحقین سے تعزیت اور زخمیوں سے دلی ہمدردی کا اظہار کیا۔ صدر نے صوبائی حکومت کو زخمیوں کو بہتر طبی سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے بھی مستونگ میں بس پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے جاں بحق افراد کے لواحقین سے تعزیت اور زخمیوں سے دلی ہمدردی کا اظہار کیا اور صوبائی حکومت کو ہدایت کی کہ زخمیوں کو ہر ممکن طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔ وزیراعلٰی بلوچستان عبدالمالک بلوچ نے بسوں پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے جاں بحق افراد کے اہل خانہ سے تعزیت کی اور زخمیوں سے دلی ہمدردی کا اظہار کیا۔ علاوہ ازیں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، وفاقی و صوبائی وزراء، گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد، وزیراعلٰی سندھ سید قائم علی شاہ، پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، سابق صدر آصف علی زرداری، قائد ایم کیو ایم الطاف حسین، مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین، اے این پی کے سربراہ اسفند یارولی خان اور دیگر سیاسی ومذہبی رہنماؤں نے دھماکے کی شدید مذمت کی۔

واقعے کے بعد مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے کوئٹہ میں‌ دھرنے کی کال دی گئی۔ ایم ڈبلیو ایم کے رہنماؤں نے پہلے شہداء کے لواحقین سے دھرنے کیلئے تائید حاصل کی اور بعدازاں صبح گیارہ بجے شُہداء چوک پر جنازوں کیساتھ دھرنے کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ وزیراعلٰی بلوچستان ڈاکٹر عبداالمالک بلوچ بدھ کی شام کو اسلام آباد سے کوئٹہ پہنچے۔ ائیرپورٹ سے سی ایم ایچ ہسپتال گئے۔ جہاں پر انہوں نے زخمیوں کی عیادت کی اور وہاں سے علمدار روڈ پر لاشوں کیساتھ دھرنا دیئے ہوئے شیعہ ہزارہ قوم کے ساتھ اظہار یکجہتی کی اور انہیں یقین دلایا کہ اس واقعہ میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جائیگا اور آپ کے لوگوں کیلئے ایران جانے اور آنے کیلئے متبادل راستہ فراہم کیا جائیگا۔ مذاکرات میں صوبائی وزراء، اسپیکر صوبائی اسمبلی اور ارکان اسمبلی وزیراعلٰی کیساتھ تھے۔ اس موقع پر وزیراعلٰی بلوچستان نے مجلس وحدت مسلمین کے رکن صوبائی اسمبلی سید آغا رضا اور شیعہ کانفرنس کے رہنماؤں سے مذاکرات کئے۔ تاہم لواحقین کا موقف تھا کہ وہ مشاورت کے بعد ہی دھرنا ختم کریں گے۔ جس کے بعد وزیراعلٰی بلوچستان علمدار روڈ سے سخت سکیورٹی میں وزیراعلٰی ہاؤس پہنچ گئے۔ تاہم رات گئے تک علمدار روڈ پر لاشوں کیساتھ ان کے لواحقین کا دھرنا جاری رہا۔

کوئٹہ میں علمدار روڈ پر دوسرے روز بھی دھرنا جاری رہا۔ خواتین، بچے، بزرگ شدید سردی میں اپنے پیاروں کی میتیں رکھ کر سراپا احتجاج تھے۔ مظاہرین نے قاتلوں کی گرفتاری اور ٹارگٹڈ آپریشن کا مطالبہ کیا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین نے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف موثر کارروائی تک دھرنا نہ ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اسی طرح بلوچستان سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں مجلس وحدت مسلمین کے زیراہتمام لواحقین کیساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے دھرنے دینے کا اعلان کر دیا۔ بلوچستان شیعہ کانفرنس کے قائم مقام صدر سید مسرت حسین نے کہا کہ سانحہ مستونگ پر وفاقی حکومت کے ردعمل کا انتظار ہے۔ انہوں نے کہا کہ واقعے میں ملوث افراد کے خلاف نتیجہ خیز آپریشن ہوگا، تو ہی دھرنا ختم کرینگے۔ ہمیں ایسا آپریشن چاہیے جو ٹارگٹڈ ہو اور اس کے نتائج نظر آئیں۔ انکا مزید کہنا تھا کہ کوئی بھی طالع آزما ہمارے خون کو بیچنے کی کوشش نہ کرے، کیونکہ ہمیں حکومت نہیں، پرامن ریاست چاہیے۔ اس لئے ہم حکومت سے کہتے ہیں کہ یا تو حکومت چھوڑ دیں، یا ہمیں ہمارا حق دیا جائے۔ دھرنے کے دوسرے دن مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا خطاب کرتے  ہوئے کہنا تھا کہ اگر وفاقی حکومت نے لواحقین کے مطالبات تسلیم نہ کئے تو پورے پاکستان سے قافلے اسلام آباد کا رُخ کرینگے۔ انکا کہنا تھا کہ پورے ملک میں دہشتگردوں کا راج ہے، لیکن حکومت سمیت ریاستی ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا سمیت مختلف نام نہاد سیاسی و مذہبی رہنماء ملک میں دہشتگردوں کی یکطرفہ کارروائی کو پراکسی وار کا نام دیکر ہمارے شُہداء کی توہین کر رہے ہیں۔ علامہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ کراچی سے لیکر گلگت بلتستان تک شیعیان حیدر کرار (ع) کا بے گناہ خون بہایا گیا۔ لیکن آج تک ہم نے اسلحہ نہیں اُٹھایا اور ہمیشہ اتحاد و یکجہتی کی بات کرتے رہے۔ شیعیانِ حیدر کرار (ع) محب وطن، باغیرت و باضمیر ہے، اسی لئے ہم دہشتگرد عناصر سے مذاکرات کیخلاف ہیں اور ملکی بقاء کی خاطر دہشتگردوں کا مقابلہ پرامن رہ کر رہے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف عوام کے وزیراعظم ہیں یا دہشتگردوں کے وزیراعظم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر سکیورٹی فورسز پر دہشتگرد حملہ کرتے ہیں تو چیف آف آرمی اسٹاف دہشتگردوں کیخلاف جیٹ جہازوں سے حملہ کرتے ہے۔ لیکن اگر وہی دہشتگرد پاکستان کی مظلوم عوام پر حملہ کرے، تو وہ دہشتگردوں کیساتھ چپ سادھ لیتے ہے۔ انہوں نے اس موقع پر اعلان کیا کہ اگر حکومت نے مطالبات تسلیم نہ کئے تو کوئٹہ سمیت ملک بھر سے قافلے اسلام آباد کا رُخ کرینگے۔ علاوہ ازیں اعلان ہوا ک اسی شام لواحقین شہداء، قائد وحدت علامہ ناصر عباس جعفری، علامہ اعجاز بہشتی، علامہ سید ہاشم موسوی اور ممبر بلوچستان اسمبلی سید محمد رضا پریس کانفرنس کرینگے۔

علامہ ناصر عباس جعفری کے خطاب کے بعد بلوچستان حکومت کے نمائندے دوبارہ علمدار روڈ دھرنے میں مذاکرات کیلئے پہنچ گئے۔ اس موقع پر ایم ڈبلیو ایم کے رہنماء سید محمد رضا رضوی کا کہنا تھا کہ جب تک وفاقی حکومت سے کوئی وفد مذاکرات کیلئے نہیں‌ آتا، تب تک مذاکرات جاری رہینگے۔ رات گئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی ہدایت پر کوئٹہ پہنچے اور سی ایم ایچ ہسپتال میں زخمیوں‌ کی عیادت کے بعد علمدار روڈ آئے۔ امام بارگاہ حسینی قندھاری میں حکومتی وفد نے علامہ ناصر عباس جعفری، ایم پی اے سید محمد رضا، بلوچستان شیعہ کانفرنس کے صوبائی صدر محمد علی شاہ سمیت دیگر رہنماؤں سے مذاکرات کرنے پہنچ گئے۔ طویل گفتگو کے بعد چوہدری نثار علی خان نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یقین دلایا کہ لواحقین کے تمام مطالبات کو تسلیم کیا جائے گا اور دہشتگردوں کیخلاف کارروائی ہوگی۔ بعدازاں چوہدری نثار علی خان لواحقین سے بات چیت کرنے دھرنے میں پہنچ گئے۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے سانحہ مستونگ میں انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ دہشت گردوں کا پیچھا کیا جائے گا اور انہیں وطن عزیز میں مزید دہشت گردی کی اجازت قطعاً نہیں دی جائے گی۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی خصوصی ہدایت پر وفاقی وزیر پرویز رشید کے ہمراہ کوئٹہ پہنچا ہوں۔ شیعہ قوم کا غم صرف ان کا نہیں بلکہ مستونگ کے واقعہ نے پوری قوم کو غم زدہ کر دیا ہے۔ اس میں جو بھی قوتیں ملوث ہیں، ان کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ وہ بچ نہیں سکیں گی۔ شیعہ ہزارہ قوم کو ہمیشہ نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ شیعہ ہزارہ قوم کو پاکستان دوستی اور پرامن رہنے کی سزاء دی جا رہی ہے۔ شیعہ ہزارہ قوم پرامن اور پاکستان سے محبت کرنے والی قوم ہے۔ اسی بنیاد پر نیک نامی کمائی ہے۔ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے والوں کا پیچھا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ واقعہ سے متعلق وزیراعظم نے اعلٰی سطحی اجلاس بلایا، جس میں آرمی چیف کے علاوہ بعض وفاقی وزراء نے بھی شرکت کی اور ہمیں فوری طور پر کوئٹہ آنے کی ہدایت کی۔ یہاں شیعہ ہزارہ قوم سے مذاکرات ہوئے ہیں اور ان کے جو مطالبات ہیں، اس پر کارروائی ہوگی۔ صوبائی حکومت کو بھی وفاق کی جانب سے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ کوئٹہ میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے حوالے سے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ نہ صرف زائرین کی سکیورٹی کے حوالے سے انتظامات کو موثر اور بہتر کیا جائے گا بلکہ کوئٹہ شہر میں عوام کی جان و مال کے تحفظ کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے جائیں گے۔ 

درایں اثناء وزیر داخلہ اور شیعہ ہزارہ قوم کے اکابرین کے درمیان طویل ملاقات ہوئی۔ جس کے دوران وفاقی وزیر داخلہ نے انہیں یقین دلایا کہ کوئٹہ اور مستونگ میں ٹارگٹڈ آپریشن کیا جائے گا اور ان واقعات میں ملوث افراد کیخلاف بھرپور کارروائی کی جائے گی۔ وزیر داخلہ کی اس یقین دہانی پر ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ عبدالخالق ہزارہ نے شہداء کے ورثاء کو مذاکرات پر اعتماد میں لئے بغیر اسٹیج پر پہنچ کر دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ جس پر دھرنے کے شرکاء نے ان کے اس اعلان کو رد کر دیا، چونکہ ہزارہ قوم کی نام نہاد سیاسی پارٹی ایچ ڈی پی کا کردار اس سے قبل بھی کوئٹہ میں مشکوک رہا ہے اور اسی بناء پر لواحقین اور شرکاء کا ان پر اعتماد نہیں تھا۔ بعدازاں مجلس وحدت مسلمین کے رکن بلوچستان اسمبلی سید محمد رضا نے دھرنے کے شرکاء سے خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر شہداء کے لواحقین کہیں کہ دھرنا جاری رہے، تو میں ابھی کال دے کر پورے پاکستان کو جام کروا دوں گا۔ اگر شہداء کے لواحقین کہیں کہ دھرنا ختم کریں تو ابھی ختم کرنے کی کال دیتا ہوں۔ تمام شُہداء کے لواحقین نے سید محمد رضا پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے دھرنا ختم کرنے پر رضا مندی ظاہر کر دی۔ تمام شُہداء کے جنازوں کو امام بارگاہ حسینی نیچاری منتقل کر دیا گیا ہے اور جمعہ کے روز شُہداء کی باقاعدہ تدفین کر دی گئی۔


خبر کا کوڈ: 344871

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/news/344871/کوئٹہ-دھرنے-کا-مکمل-احوال

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org