0
Tuesday 28 Jan 2014 02:48
شدت پسند ہمارے معاشرے کو یرغمال بنانا چاہتے ہیں

تحریک انصاف طالبان کا سیاسی ونگ ہے، دہشتگردوں کیخلاف عوام اور حکومت کو متحد ہونا ہوگا، پرویز رشید

تحریک انصاف طالبان کا سیاسی ونگ ہے، دہشتگردوں کیخلاف عوام اور حکومت کو متحد ہونا ہوگا، پرویز رشید
اسلام ٹائمز۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کے حوالے سے تمام ادارے ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں، طے ہوچکا ہے کہ جس ادارے کو جو ذمہ داریاں سونپی جائیں گی، وہی ادا کر ے گا، باہر کے کسی شخص یا مذہبی گروہ کو یہ اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی، تحریک انصاف طالبان کیلئے نرم گوشہ رکھتی ہے، یہ طالبان کا سیاسی ونگ ہے، عمران خان کو چاہیے کہ وہ دہشت گردوں کے حملوں کی مذمت کریں اور واضح بیان دیں، تاکہ قوم کو اطمینان حاصل ہو کہ تمام جماعتیں ایک ہی نقطہ پر متقق ہیں۔ نجی ٹی وی سے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو دہشتگردی کے عفریت سے نجات دلوائے، شرعی، آئینی و اخلاقی طور پر دہشت گردوں سے مذاکرات کرنے چاہییں۔ ریاست اپنے اس فرض کو پورا کر رہی ہے، طالبان آئین کو نہیں مانتے، وہ خلافت چاہتے ہیں، لیکن حکومت ان کے ساتھ آئین کے تحت آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ دہشت گردوں سے مذاکرات کے حوالے سے تمام ادارے کام کررہے ہیں اور اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں، اب یہ طے ہوچکا ہے کہ جس ادارے کو جو ذمہ داریاں سونپی جائیں گی، وہی اس کو ادا کر ے گا اور باہر کے کسی شخص یا مذہبی گروہ کو یہ اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی کہ وہ یہ ذمہ داریاں اداکریں۔ 

تحفظ پاکستان آرڈیننس کے تحت اس بات کو مزید واضح کر دیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی والے کہتے ہیں کہ آپریشن نہیں ہونا چاہیے، یہ طالبان کیلئے سڑکوں پر کھڑا ہو کر ان کیلئے راہ ہموار کرتے ہیں، یہ طالبان کا سیاسی ونگ ہیں اور اس لحاظ سے ان کی پوری نمائندگی کرتے ہیں، یہ ان کی شکایتیں اور زیادتیاں اپنی زبان میں بیان کرتے ہیں۔ میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے تحریک انصاف سے کوئی بات چھپائی نہیں جائے گی، ان کی اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں لانے کی خواہش پوری کی جائے گی، ان کے پارلیمانی لیڈران سے بھی گفتگو کی جائے گی، لیکن انہیں چاہیے کہ اپنا طرز عمل درست کریں اور طالبان کے دہشتگردی کے حملوں کی واضح الفاظ میں مذمت کریں۔ طالبان کیلئے نرم گوشہ رکھنے والوں کی باز پرس ہونی چاہیے، شدت پسندوں کے خلاف کھل کر بولنا ہوگا، دہشت گردوں کے خلاف عوام اور حکومت کو متحد ہونا ہوگا۔ ملک کو بیرونی اور اندرونی خطرات ہیں۔ صحافت کو نہیں پورے پاکستان کو خطرات لاحق ہیں دہشت گردوں سے فوج، پولیس اور بچے بھی محفوظ نہیں ہیں، ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ دہشتگردوں سے لڑنا ہے یا نہیں۔ 

طالبان جمہوریت کو اسلام کے متصادم سمجھتے ہیں۔ دہشت گردوں کے لئے نرم گوشہ رکھنے والوں کی نشاندہی کرنا ہوگی اور ان سے باز پرس بھی ہونی چاہیے۔ ہمیں اختلافات ختم کرکے متحد ہونا پڑے گا۔ ملک کو بچانے کیلئے تمام اداروں کو اکٹھا ہونا پڑے گا۔ کسی کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں کر رہے ہیں، پرویز مشرف کے خلاف قانونی مقدمہ شروع ہو تو الزام تراشی اور تنقید شروع ہوگئی۔ صحافیوں کو دھمکیاں دینے پر احمد رضا قصوری کے خلاف مقدمہ درج کرائیں گے ہمیں بھی نام لے کر دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ میڈیا کی سکیورٹی سے متعلق اجلاس 31 جنورل کو بلایا ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دہشت گرد جو شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں خود اسکی خلاف ورزی کر رہے ہیں، فیصلہ کن لڑائی کیلئے صحافت، سیاست اور عدالت کو متحد ہونا ہوگا، صحافیوں کے تحفظ کیلئے ہرممکن وسائل بروئے کار لائیں گے، سیاستدان بھی خطرے میں ہیں، صحافیوں کے تحفظ کیلئے وزیراعظم کی تشکیل شدہ کمیٹی کا اجلاس 31 جنوری کو ہوگا، مشرف پر آئینی قانونی مقدمہ بنایا پھر بھی میڈیا نے تنقید کی، صحافی کو دھمکی دینے پر احمد رضا قصوری کیخلاف مقدمہ درج کرائیں تو ٹی وی ٹاک شوز میں خود صحافی کہیں گے کہ مشرف کے کیس پر اثر انداز ہونے کیلئے وکیل کو ڈرایا دھمکایا جارہا ہے، قصوری وکیل نہیں شریف الدین پیرزادہ نے انہیں صرف گالی گلوچ کیلئے رکھا ہوا ہے۔ 

پاکستان حالت جنگ میں ہے فوج سیاستدان سکیورٹی اہلکار صحافی سب خطرے میں ہیں، ہمیں دشمن کی شناخت کرنا ہوگی۔ طالبان صرف صحافیوں نہیں سیاستدانوں کو بھی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ عبادت گاہوں، مساجد، سکولوں پر حملے کرنا کیا ہماری لڑائی ہے؟ کیا دہشت گرد ہماری لڑائی لڑ رہے ہیں؟ دہشت گردی کا اسلام سے کیا تعلق ہے؟ اے این پی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون سب خطرے کے نشانے پر ہیں، ہمیں اندرونی حملے کا سامنا ہے، پاکستان مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔ قوم کو دہشت گردوں کیخلاف متحد ہونا چاہیے۔ دہشت گردوں کے حق میں جواز اور دلائل تلاش نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان اور جمہوریت محفوظ ہوگی تو صحافت محفوظ ہوگی۔ دہشت گرد جمہوریت کو اسلام کے متصادم قرار دیتے ہیں۔ صحافت اور سیاست کو اکٹھے ہونا پڑے گا۔ شہید صحافیوں کے اہل خانہ کو معاوضہ ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن معاوضوں کے مطالبات سے دہشتگرد خوش ہوتے ہیں۔ دہشتگرد معاشرے کو یرغمال بنانا چاہتے ہیں وہ پوری قوم کو داڑھیاں رکھوانا چاہتے ہیں۔ میڈیا کو اب لکیر کھینچنا ہوگی۔ شدت پسندوں کیخلاف کھل کر بولنا ہوگا۔ مشرف کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کی تو ہم پر تنقید ہوئی۔ ہمیں بھی نام لے کر دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ سیاستدانوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سب یکجا ہوجائیں، پاکستان اندرونی حملے کا شکار ہے۔ بچوں اور بچیوں کو بھی تعلیم سے روکا جا رہا ہے۔ شدت پسند ہمارے معاشرے کو یرغمال بنانا چاہتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 345743
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش