1
0
Wednesday 26 Feb 2014 20:27
پاکستان شام میں مداخلت سے باز رہے

طالبان اور انکے سرپرستوں کو غداران وطن قرار دیا جائے، آل پارٹیز کانفرنس

کالعدم تنظیم سے مذاکرات آئین پاکستان کے منافی ہیں، کسی صورت اجازت نہیں دینگے
طالبان اور انکے سرپرستوں کو غداران وطن قرار دیا جائے، آل پارٹیز کانفرنس
اسلام ٹائمز۔ تحفظ ناموس رسالت محاذ کے زیراہتمام وطن عزیز میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور طالبانائزیشن کیخلاف اور فوجی آپریشن کی حمایت میں 50 سے زائد اہل سنت کی تنظیمات اور دیگر ہم خیال سیاسی و مذہبی جماعتوں پر مشتمل ’’آل طالبان مخالف پارٹیز کانفرنس‘‘ ہوئی، جس میں ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما اور رکن رابطہ کمیٹی عبدالحسیب، مجلس وحدت مسلمین کے سید ناصر عباس شیرازی اور مسلم لیگ قاف کے وفود نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ اہل سنت جماعتوں میں سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا، پاکستان سنی تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری، ناظم اعلٰی جامعہ نعیمیہ اور نائب ناظم اعلٰی تنظیم المدار س اہل سنت پاکستان علامہ محمد راغب حسین نعیمی، تحفظ ناموس رسالت محاذ کے صدر علامہ رضائے مصطفٰی نقشبندی، تنظیم المدارس اہل سنت کے علامہ غلام محمد سیالوی، سنی تحریک لاہور ڈویژن کے امیر مولانا مجاہد عبدالرسول قادری، ادارہ صراط مستقیم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی، خیرالامم فانڈیشن پاکستان کے سربراہ پیر سید کرامت علی حسین شامل تھے۔

دیگر اہلسنت رہنمائوں میں محمد ضیاءالحق نقشبندی، تحفظ ناموس رسالت محاذ کے جنرل سیکرٹری مولانا محمد علی نقشبندی، نعیمین ایسوسی ایشن پاکستان کے صدر مفتی محمد حسیب قادری، جمعیت علماء پاکستان سواد اعظم کے امیر پیر سید محفوظ مشہدی، محافظان ختم نبوت پاکستان کے امیر مولانا محمد اعظم نعیمی اور علامہ ذوالفقار مصطفٰی ہاشمی، انجمن اساتذہ پاکستان پنجاب کے صدر پروفیسر محمد احمد اعوان، تحریک فدایان مصطفٰی کے امیر حافظ محمد اکبر جتوئی، وکلا ونگ کے صدر کامران بھٹہ ایڈووکیٹ، اسلامک ریسرچ کونسل پاکستان کے صدر مفتی محمد کریم خان، پاکستان فلاح پارٹی کے صدر قاضی عتیق الرحمن، مرکزی جماعت اہل سنت پاکستان کے مولانا محمد نعیم عارف نوری، دعوت حق کے امیر مولانا اصغر علی نورانی، تحریک فدایان ختم نبوت کے امیر پیر سید واجد علی شاہ، مولانا محمد ارشد نعیمی، فخرالعلوم علماء کونسل، عدنان رضا قادری اور دیگر اکابرین اہل سنت شامل تھے۔ جبکہ دیگر اہلسنت کی تنظیموں جن میں مجلس علماء نظامیہ، بزم رسولیہ شیرازیہ، انوار مدینہ نعت کونسل، بزم نعیمیہ، نگینہ ویلفیئر سوسائٹی، تنظیم علماء اہل سنت، کونسل آف جرائد اہل سنت، الفکر ٹرسٹ، بزم لاثانی، نیشنل مشائخ کونسل پاکستان، پاکستان مشائخ کونسل، نفاذ فقہ حنفیہ، دفاع اسلام محاذ، بزم جامعہ اسلامیہ، ادارہ المصطفٰی، حقوق اہل سنت، عالمی اہل سنت والجماعت، عالمی تنظیم اہل سنت، ختم نبوت انٹرنیشنل، عالمی بزم لاثانی شامل تھیں۔

آل طالبان مخالف پارٹیز کانفرنس میں اہل سنت کی تمام نمائندہ مذہبی اور سیاسی جماعتوں اور دیگر اینٹی طالبان جماعتیں جن میں ایم کیو ایم، مجلس وحدت مسلمین، مسلم لیگ قاف اور دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں نے طالبان سے مذاکرات ختم کرکے آپریشن شروع کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ تمام پرامن اور محب وطن طبقات ریاست مخالف دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں ریاست اور پاک فوج کیساتھ ہیں، اینٹی طالبان و دہشت گردی اے پی سی میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ عنقریب گو طالبان گو تحریک چلائی جائے گی اور جمعہ 28 فروری کو اینٹی طالبان ڈے منایا جائے گا۔ تمام محب وطن جماعتیں طالبان کی مزاحمت کیلئے متحد ہوچکی ہیں، طالبان کے حامیوں، ہمدردوں اور سرپرستوں کیخلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے اور ریاست کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے اور طالبان کی حمایت کو سنگین ترین جرم قرار دیا جائے، پاکستان کے باغیوں کی حمایت کرنیوالے ملک اور قوم کے غدار ہیں، طالبان کی حامی مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو مناظرے کا چیلنج دیتے ہیں۔

اے پی سی نے مطالبہ کیا کہ آئین نہ ماننے والوں کو ریاستی گرفت میں لایا جائے، طالبان اسلام کے خوبصورت چہرے کو بدنام اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو کمزور کر رہے ہیں۔ جن دہشت گردوں کو عدالتوں سے سزائے موت سنائی جا چکی ہے ان کی سزا پر فی الفور عمل کیا جائے اور گرفتار دہشت گردوں کا سپیڈی ٹرائل کرکے انہیں سرعام پھانسی پر لٹکایا جائے، طالبان ڈالروں کے لالچ میں پاکستان دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اس لیے طالبان کو ریاست کا نمبر 1 دشمن قرار دیا جائے، پاک افغان بارڈر کو سیل کرکے دہشت گردوں کی آمدورفت روکی جائے، پچاس ہزار سے زائد شہداء کے بے رحم قاتلوں سے مذاکرات شہداء کے خون سے غداری ہے۔ وفاقی شرعی عدالت طالبان کی شریعت کے نام پر دہشت گردی کا ازخود نوٹس لے اور طالبان سے شرعی قوانین کے مطابق پچاس ہزار سے زائد شہداء کا قصاص طلب کیا جائے اور ان کیخلاف شرعی مقدمات چلائے جائیں، جماعت اسلامی اور جے یو آئی طالبان کا سیاسی ونگ ہیں، جماعت اسلامی، جے یو آئی اور طالبان ایک ہی سکے کے مختلف رخ ہیں۔

کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاک فوج، ایف سی اور پولیس کے افسروں اور جوانوں کے قتل کا بدلہ حکومت پر قرض اور فرض ہے کلمہ گو مسلمانوں کا خون بہانے والے طالبان عہد حاضر کے خوارج ہیں، جو اپنے سوا ہر ایک کو کافر اور واجب القتل سمجھتے ہیں۔ ملک کی سلامتی کے تحفظ کے لیے ریاست اور آئین کے باغیوں کے خلاف ملک گیر آپریشن ناگریز ہوچکا ہے، پاک فوج کو دہشت گردی کے خاتمے کیلئے فری ہیڈ دیا جائے اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر مشترکہ نیشنل سکیورٹی پالیسی واضح کی جائے، فوجیوں کے گلے کاٹنے والے کسی رحم اور رعایت کے مستحق نہیں، طالبان اور ان کے حامیوں کو سرکاری طور پر غداران اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دیا جائے اور ریاستی اداروں کو طالبان نواز عناصر سے پاک کیا جائے، مذاکرات اپنی افادیت کھو چکے ہیں، مذاکرات سے امیدیں وابستہ کرنا بے وقوفی ہے کیونکہ دھماکوں کی گن گرج میں مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں، امن کو ایک اور موقع دینے کی پالیسی یکسر ناکام ہوچکی ہے، اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ طالبان سے مذاکرات ختم کرنے کا دوٹوک اعلان کیا جائے۔

کانفرنس میں شریک جماعتوں نے کہا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو دہشت گردی سے تنگ آئی ہوئی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قوم سٹرکوں پر نکل آئے گی اور تمام شہروں میں لامحدود مدت کے لیے دھرنے دینے پر مجبور ہوجائیں گے، اب امن کے لیے جنگ ضروری ہوچکی ہے، اس لیے ملک بچانے کے لیے طالبان کے خلاف جہاد کا اعلان کیا جائے، پوری قوم اس جہاد میں حکومت اور سکیورٹی فورسز کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہے، آئین میں دہشت گردوں اور باغیوں سے مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں۔ کالعدم قرار دی گئی تنظیم سے مذاکرات آئین کے منافی ہیں۔ فتنہ انکار آئین کو کچلا نہ گیا تو ملک میں فساد اور بغاوتیں پھیلیں گی۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں سکیورٹی فورسز کے جاں بحق جوانوں کو شہید نہ ماننے والے ملک اور قوم کے غدار اور شریعت سے ناواقف ہیں۔ طالبان کا امیر افغانستان میں بیٹھ کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے، طالبان کے بھارت، اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ رابطہ کھلی حقیقت ہیں، فسادیوں کو اثاثہ سمجھنے کی ریاستی سوچ درست نہیں کیونکہ طالبان گمراہ ہی نہیں بلکہ ملک دشمن بھی ہیں۔ امن کا جھنڈا اٹھانے والے ہی ملک کا اصل اثاثہ ہیں، ریاست کے باغیوں کو گلے لگانا خطرناک اور خوف ناک ہے، اس لیے حکومت دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کی ناز برداری سے باز آجائے۔

مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں ملوث دہشت گردوں کو افغانستان میں امریکی پناہ حاصل ہے۔ افغان حکومت پاکستان کو مطلوب دہشت گرد پاکستان کے حوالے کرے، افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال ہونا افسوس ناک ہے۔ طالبان شریعت کے حامی نہیں باغی ہیں، نفاذ شریعت کے لیے بندوق کا استعمال خلاف شریعت ہے، اسلامی ریاست کے خلاف مسلح بغاوت اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ طالبان کے گمراہ کن فہم شریعت کو مسترد کرتے ہیں، مسجدوں، مدرسوں، مزاروں، اعراس، امام بارگاہوں، پاک فوج، پاک پولیس، سکولوں، کالجوں، مارکیٹوں، ہسپتالوں، جنازوں، چرچوں، پولیو ورکرز، غیر ملکی کھلاڑیوں اور سیاحوں پر حملے کرنے والے شریعت کے علمبرار نہیں ہوسکتے۔ آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان کو غیر اسلامی قرار دینا گمراہ کن سوچ ہے، 1973ء کے آئین پر تمام مکتبہ فکر کے جید علما و مشائخ نے دستخط کر رکھے ہیں۔ آئین میں شامل غیر اسلامی دفعات کو قرآن وسنت کے مطابق بنانے کے لیے متعلقہ نمائندہ فورم اسلامی نظریاتی کونسل کی متفقہ تجاویز کو پارلیمنٹ میں پیش کرکے آئین میں شامل کیا جائے اور آئین پاکستان کا عملی نفاذ قرارداد مقاصد کی روشنی میں یقینی بنایا جائے، اس لیے آئین شریعت کے نفاذ کی ضمانت دیتا ہے، ملک میں شریعت نافذ ہوگئی تو طالبان اور ان کے حمایتی پھانسی چڑھیں گے۔

اے پی سی کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ حکومت اپنے شہریوں کے تحفظ کے آئینی تقاضے پورے کرے۔ دہشت گردی کے باعث پیدا ہونے والی خوف و ہراس کی فضا میں اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری کا عمل رک گیا ہے اور ملک پاکستان کے دشمن بیرونی عناصر کو پیدا کردہ حالات سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل رہا ہے، پورا ملک مقتل اور آتش فشاں بن چکا ہے۔ اس لیے حکومت دہشت گردوں کو کچلنے کو اپنی پہلی ترجیح بنائے اور حکمران خوف مسلط سے نکل کر جرات مندانہ فیصلے کرے، دہشت گردوں کیخلاف آپریشن کو نتیجہ خیز بنایا جائے اور منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک آپریشن جاری رکھا جائے، دہشت گردوں کے اندورنی و بیرونی فنڈز کے تمام ذرائع ختم کیے جائیں، پاکستان میں مداخلت کرنیوالے اسلامی اور غیر اسلامی ممالک سے دو ٹوک بات کی جائے اور انہیں پاکستان میں مداخلت ختم کرنے کے لیے قائل کریں، طالبان اور امریکہ دونوں مسلمانوں اور پاکستانیوں کو مار رہے ہیں، اس لیے امریکہ اور طالبان سے نجات میں ہی قوم کی حیات ہے۔ شام میں بشار الاسد حکومت ختم کرنے کیلئے سعودی عرب کے ایماء پر پاکستانی فوج بھیجنے اور دہشت گردوں کی تربیت کرنے کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ وطن عزیز میں سعودی اور امریکی مداخلت روکی جائے۔
خبر کا کوڈ : 355860
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ای کاش کوئی اهل حدیث یا دیوبندی بهی اپنے ملک سے محبت اور ملک دشمن طالبان سے اظهار برائت کرتا، لیکن انهین پاکستان کی امنیت سے کیا لینا دینا!!!!!!!!!
ہماری پیشکش