0
Friday 7 Mar 2014 01:05

طالبان جنگ بندی کے بعد مایوسی کا شکار

طالبان جنگ بندی کے بعد مایوسی کا شکار
رپورٹ: نہج عباس

طالبان کی طرف سے جنگ بندی کے بعد دہشتگردانہ حملوں کو دیکھتے ہوئے ایک بھرپور فوجی آپریشن کا مطالبہ بڑھتا جا رہا ہے، اسکے باوجود کچھ ماہرین حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ عسکریت پسندوں کی ذہنیت کو بہتر انداز میں سمجھ کر اسکو ریاست کے مفاد میں استعمال کیا جائے، سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ایک عہدے دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ”ہمارا معاشرہ سطحی طور پر "صرف مذاکرات" اور "صرف فوجی آپریشن" کے خطوط پر تقسیم ہوچکا ہے۔ ہمیں عسکریت پسندوں کی طرزِ فکر کو سمجھنے کی ضرورت ہے، انکے ایک دوسرے کیساتھ اختلافات موجود ہیں اور انکے انہی اختلافات کو استعمال کرتے ہوئے انہیں ایک دوسرے کیخلاف کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔“

حال ہی میں ایک نیا گروپ احرارالہند کے نام سے سامنے آیا ہے اور اس نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی سے ٹوٹ کر علیحدہ ہوا ہے۔ اس گروپ نے اسلام آباد کے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے پاکستان بھر میں خصوصاً بڑے شہروں میں حملے جاری رکھنے کا اپنا مذموم ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اسکے سربراہ عمر قاسمی کا نام شمالی وزیرستان یا دیگر شہروں میں عسکریت پسند حلقوں کی جانب سے کبھی نہیں سنا گیا، گروپ کے ترجمان اسد مسعود کا کہنا ہے کہ ”ٹی ٹی پی کے لیڈر محض قبائلی علاقوں کو آزاد کروانے کی نیت سے مذاکرات کے عمل میں داخل ہوئے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ملک بھر میں شریعت کا نفاذ انکا مطالبہ نہیں ہے، وہ شہروں میں رہنے والے مجاہدین کو نظرانداز کر رہے ہیں۔“ اسکے علاوہ ٹی ٹی پی کا مہمند چیپٹر بھی مذاکرات پر تنقید کرتا رہا ہے، تاہم اسکا کہنا ہے کہ وہ اپنی قیادت کے فیصلے کی پاسداری کریگا۔

ٹی ٹی پی کے مہمند کے ترجمان عمر خراسانی کیمطابق”ہم باہمی مشاورت کیساتھ آگے بڑھیں گے۔ ہماری قیادت نے ایک ماہ طویل جنگ بندی کے انتخاب کا فیصلہ کیا ہے اور اس حقیقت کے باوجود کہ ریاست کی جانب سے ہمارے اراکین کو ہلاک کرنیکا سلسلہ جاری ہے، ہم اسکی پابندی کریں گے۔“ افغانستان میں ہوئی ایک حالیہ ملاقات کے دوران ٹی ٹی پی مہمند چیپٹر کے سربراہ خالد خراسانی (جو پہلے عمر خالد خراسانی کے نام سے جانے جاتے تھے) نے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی کی ہائی کمانڈ کے اندر انکے گروپ کی خاصی نمائندگی موجود ہے اور وہ امن مذاکرات پر اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا ”اس بارے میں سوچئے کہ ٹی ٹی پی کی مذاکراتی کمیٹی کی قیادت کرنیوالے قاری شکیل احمد حقانی درحقیقت میرے نائب ہیں۔ لہٰٕذا اس الزام میں کوئی سچائی نہیں کہ ہم مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔“ لیکن پسِ پردہ حقیقی سوچ احرارالہند سے غیر معمولی حد تک مماثلت رکھتی ہے۔

ٹی ٹی پی مہمند کے ایک سینئر کمانڈر، جنہوں نے حال ہی میں اس دعوے کو مسترد کر دیا تھا، کہ احرارالہند کو ٹی ٹی پی مہمند کی جانب سے چلایا جا رہا ہے، کہتے ہیں کہ ”وزیرستان میں ہمارے کچھ رہنمائوں کا نکتہ نظر بہت محدود ہے، وہ محض وزیرستان میں کچھ مراعات پر مطمئن ہوجائیں گے ، ہمارا ایجنڈا محض وزیرستان حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ ہم عالمی خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں۔“ انہوں نے میڈیا سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا ”ہم اس گروپ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ اگر آپ حقیقت سے واقف ہیں تو ہمیں بتائیں کہ وہ کون ہیں۔“ انکے اس دعوے کو ہضم کرنا بہت مشکل ہے کہ وہ اس گروپ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ اسلامک موومنٹ آف ازبکستان نے مذاکرات کی سختی سے مخالفت کی ہے، انہیں خوف ہے کہ معاہدے میں ممکنہ طور پر غیر ملکی جنگجووں کو پاکستان سے نکالنے کی شق شامل کی جائیگی۔ اس اقدام کیلئے انکے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ احمد مروت کی جنداللہ جو ٹی ٹی پی کا ایک گروپ ہے، مذاکرات کو شک و شبہے کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اسکی مخالفت کرتا ہے۔ ٹی ٹی پی کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کا کہنا ہے کہ ”اگر آپ یہاں تجربہ کار مجاہدین سے بات کرتے ہیں، تو مشکل ہے کہ انہوں نے کبھی اس خاص گروہ کے بارے میں سنا ہو یا ان لوگوں کے بارے میں جو اس کے پسِ پردہ کام کر رہے ہیں، ہم نہیں جانتے کہ وہ کہاں سے آئے ہیں؟“
خبر کا کوڈ : 358784
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش