0
Monday 10 Mar 2014 08:29

حکومت نے طالبان گروپوں سے الگ الگ امن معاہدوں کیلئے خفیہ کوششیں شروع کر دیں

حکومت نے طالبان گروپوں سے الگ الگ امن معاہدوں کیلئے خفیہ کوششیں شروع کر دیں

اسلام ٹائمز۔ وفاقی حکومت خاموشی کیساتھ عسکریت پسندوں کے مختلف گروپوں سے انفرادی سطح پر امن معاہدے کرنے کی کوشش کر رہی ہے، کیونکہ حکومتی امن کمیٹی کا متفقہ موقف ہے کہ ایک وقت میں تحریک طالبان کے تمام گروپوں کیساتھ امن معاہدہ ناممکن ہے۔ حکومتی کمیٹی کے کم از کم دو ارکان نے معاملے کی حساسیت کے پیش نظر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ توقع ہے کہ وفاقی حکومت کالعدم تحریک طالبان کے بعض گروپوں سے کسی مفاہمت پر پہنچ سکے گی۔ یہ حقیقت ہے کہ تمام گروپوں کیساتھ امن معاہدہ کسی صورت ممکن نہیں، حکومت اسوقت ان گروپوں کے انتخاب میں مصروف ہے جو امن کے خواہاں اور مفاہمت چاہتے ہیں۔ حکومتی کمیٹی کے ایک اور رکن نے بتایا کہ عسکریت پسندوں کے مختلف گروہوں کیساتھ مذاکرات کیلئے بیک چینل کا سہارا لے رہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے مختلف گروپوں سے امن معاہدے کیلئے رابطے ظاہر کرتے ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی عسکریت پسندوں کے تمام گروپوں پر گرفت مضبوط نہیں، دہشتگردی کے حالیہ واقعات نے بھی ثابت کر دیا کہ تحریک طالبان کا مختلف گروپوں پر کنٹرول کمزور پڑ رہا ہے، اگر تمام شدت پسندوں گروپ کالعدم تحریک طالبان کے موقف کی تائید کرتے تو جنگ بندی کے اعلان کے بعد دہشتگردی کی حالیہ وارداتیں نہ ہوتیں۔ دوسری جانب ملک کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں یہ تاثر مضبوط ہو رہا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے تحریک طالبان صرف وقت گزار رہی ہے اور وہ امن معاہدے میں سنجیدہ نہیں۔

ایک سینیئر عسکری اہلکار نے کہا کہ تحریک طالبان کو اسلام آباد کچہری اور خیبر ایجنسی میں کئے گئے دہشگردی کے حملوں کے بعد صرف بیان بازی کے بجائے ان واقعات کی کھل کر مذمت کرنی چاہیئے تھی۔ ایک سوال پر حکومتی کمیٹی کے رکن نے کہا کہ فوج کو اب بھی حکومت کی جانب سے جاری امن مذاکرات کی کوششوں کے مثبت نتیجے کا یقین نہیں، فوج کا خیال ہے کہ تحریک طالبان امن معاہدے میں مخلص نہیں، یہی وجہ ہے کہ فوج امن کمیٹی میں شامل ہونے کو تیار نہیں۔ فوج کی اعلٰی قیادت نے گذشتہ جمعہ کو طالبان سے مذاکرات کیلئے حکومت کی جانب سے تجویز کردہ مذاکراتی کمیٹی کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا۔ حکومتی مذاکراتی ٹیم کے رکن کا یہ بھی کہنا تھا کہ فوج شاید اسوقت کسی مذاکراتی عمل میں شامل ہو جائے، اگر اسے یقین ہو کہ مخصوص گروپوں سے بات چیت یا امن معاہدہ ہوسکتا ہے۔ انہوں نے امن معاہدے میں شامل نہ ہونیوالے گروپوں کیخلاف بڑے فوجی آپریشن کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزریر خزانہ اسحق ڈار کی جی ایچ کیو میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقات کے دوران وزیرستان میں فوجی آپریشن کے حوالے سے فوج کی ضروریات بر بھی غور کیا گیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ  کسی بھی فیصلے تک  پہنچنے کیلئے حکومت کے پاس وقت اب بہت کم رہ گیا ہے، افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا کا وقت قریب آ رہا ہے، اب پاکستان کو فوری فیصلہ  کرنا ہوگا کہ عسکریت پسندی پر کس طرح قابو پانا ہے۔

خبر کا کوڈ : 359854
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش