0
Monday 10 Mar 2014 20:48

جوان سال کشمیری بیٹی کا صبر آزما انتظار، 18 سال سے والد لاپتہ، سیر و تفریح کیلئے بھارت گیا تھا

جوان سال کشمیری بیٹی کا صبر آزما انتظار، 18 سال سے والد لاپتہ، سیر و تفریح کیلئے بھارت گیا تھا
اسلام ٹائمز۔ چھتہ بل سرینگر کی رہنے والی جواں سالہ رخسانہ بانو 18 برس قبل بچھڑ چکے والد کی یاد میں آج بھی آنسو بہارہی ہے، رخسانہ کا والد سیر و تفریح کی غرض سے 1996ء میں مقبوضہ کشمیر سے بھارتی شہر گوا گیا تھا جس کے بعد نہ ہی خود لوٹا اور نہ ہی اہل خانہ کو اسکا کوئی پیغام موصول ہوا، گوا جانے سے قبل رخسانہ کا والد فاروق احمد بٹ معمار کا کام کرتا تھا، مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے رخسانہ بانو نے بتایا کہ والد کے چلے جانے کے بعد رشتہ داروں اور گھر والوں نے کئی برسوں تک اُن کی تلاش کی تاہم کوئی سراغ نہیں ملا۔ رخسانہ کے چہرے پر جدائی کا کرب صاف دکھائی دے رہا تھا، وہ کہتی ہے ’’برسوں گذر گئے لیکن میرے والد کا کوئی اتہ پتہ نہیں چلا، نہیں معلوم وہ کہاں ہیں ہمیں ابھی تک یقین ہے وہ زندہ ہیں‘‘۔

رخسانہ بانو نے کا کہنا تھا کہ ’’تب میں دوسری جماعت میں پڑھتی تھی جب میرا والد گھر سے گوا کے لئے نکلے، میں اُن کا چہرہ بھول گئی ہوں اور اب جیسے جیسے عمر بڑھتی جاتی ہے تو اُن کی یاد ستاتی ہے، جب بھی والد کی تصویر دیکھتی ہوں تو رہ رہ کر یاد ستاتی ہے، صبح شام، رات دن اُن ہی کے تصور میں کھوئی رہتی ہوں‘‘، ان کا کہنا ہے کہ اُس کا دل نہیں مانتا کہ اُس کا والد اب اس دنیا میں نہیں ہے، میری ماں اور بھائی نے پیروں اور فقیروں کے دروازوں پر بھی دستک دی، کسی درویش نے ہمارے کنبے کو یقین دہانی کرائی کہ وہ مرا نہیں ہے بلکہ کہیں زندہ ہے۔

رخسانہ کہتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کی آخری سانس تک اپنے والد کا انتظار کرے گی، اس نے کہا کہ اس کے والد کے چلے جانے کے بعد گھر کا نظام پوری طرح سے بکھر گیا اور بے آسرا و بے سہارا اہل خانہ کی کفالت کبھی ماموں تو کبھی خالہ کرتی ہیں، اس کا کہنا تھا کہ والد کی تلاش میں انہوں نے ہزاروں روپے خرچ کر دیئے، میری ماں نے میرے باپ کو تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن اب انہوں نے سب کچھ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا ہے، رخسانہ بانو کا بڑا بھائی جاوید احمد 28 برس کا ہے لیکن وہ باپ کے چلے جانے کے بعد اپنی تعلیم بارہویں سے آگے جاری نہیں رکھ سکا جبکہ چھوٹا بھائی منظور احمد چھٹی جماعت تک ہی تعلیم حاصل کر پایا، رخسانہ بانو نے کہا کہ میری تعلیم کو آگے لے جانے کے لئے میرے بھائیوں نے کافی محنت مشقت کی اور مزدوری کر کے مجھے ’’ایم اے‘‘ کی ڈگری حاصل کرائی، میرے بھائی محنت مزدوری کر کے گھر کا نظام بھی چلاتے ہیں اور تعلیم کیلئے پیسوں کا انتظام بھی کرتے ہیں۔

رخسانہ کے مطابق والد کی گمشدگی سے متعلق پولیس اسٹیشن صفاکدل سرینگر میں ایک رپورٹ بھی درج کرائی گئی ہے تاہم پولیس نے صاف طور پر کہا کہ انہیں تلاش کرنے کیلئے دس ہزار روپے لگیں گے، ’’گھر کی حالت پہلے سے ہی ٹھیک نہیں اور پھر دس ہزار روپے کا انتظام کرنا بھی مشکل بات ہے، رخسانہ بانو کی والدہ بی بی بیگم کا کہنا ہے کہ اُس کا چھوٹا بیٹا اور رخسانہ اپنے باپ کو ایک پل کے لئے بھی نہیں بھول پائے ہیں، وہ کہتی ہیں کہ چھوٹا بیٹا جب بھی کبھی دہلی جاتا ہے تو اپنے والد کی تلاش میں رہتا ہے، بی بی بیگم کا کہنا ہے ’’میں اب امید ہی ہار چکی ہوں‘‘۔
خبر کا کوڈ : 359942
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش