0
Thursday 13 Mar 2014 21:20

شام میں القاعدہ خواتین کی بٹالین سے علاقائی عوام کی نفرت میں اضافہ

شام میں القاعدہ خواتین کی بٹالین سے علاقائی عوام کی نفرت میں اضافہ
رپورٹ: ایس این حسینی

شام اور عراق میں داعش کے نام سے القاعدہ کی ایک ذیلی تنظیم کام کر رہی ہے، جو بزعم خود ان دونوں ممالک میں اسلامی حکومت کا قیام چاہتی ہے۔ یہ تنظیم اور اس جیسی بےشمار تنظیموں کو سعودی شیوخ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ داعش اگر ایک طرف نام نہاد جہاد کے ذریعے سے مردوں کی خدمات حاصل کرتی رہی ہے۔ تو دوسری جانب یہ لوگ خواتین کی بھرتیاں کرا کے خواتین کو بھی نشانہ بنا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے علاقائی عوام میں اس تنظیم سے نفرت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
 
عراق اور شام میں ایک ریٹائرڈ استاد اور الرقہ کے رہائشی حلیم معتز نے اس حوالے سے کہا کہ الرقہ میں خاص طور پر خواتین کی بٹالین کے قیام کے بعد سے الدولة الإسلامية فی العراق و الشام (داعش) کو مسترد کئے جانے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جنوری کے اواخر میں اس تنظیم نے اعلان کیا تھا کہ اس نے شام میں صرف خواتین پر مشتمل ایک بٹالین میں خواتین کی شمولیت کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ یہ بٹالین الخنساء اور ام الریان کے دو ناموں سے معروف ہے۔ معتز نے کہا کہ "داعش" سے تعلق رکھنے والی خواتین شہر کی سڑکوں پر دیکھی جا سکتی ہیں جو پیدل ہی تجارتی مراکز میں گشت کرتی ہیں یا پھر کیچڑ سے چھپائی گئی سفید گاڑیوں میں خواتین کی نگرانی کر رہی ہوتی ہیں۔ ان کا ڈرائیور تنظیم کا کوئی رکن ہوتا ہے۔ وہ شہر کے داخلی راستوں پر قائم تنظیم کی چوکیوں پر خواتین کی تلاشی بھی لیتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ الخنساء تیونس کی ایک خاتون کے زیرکمان ہے، جس کا نام ام ریان ہے۔ ام ریان کو ام حمزہ اور ام مہاجر نامی دو خواتین کی معاونت حاصل ہے۔ یہ بٹالین الرقہ شہر کے الکرناک ہوٹل میں قائم ہے۔ اس بٹالین کا قیام الدولة الإسلامية فی العراق و الشام کی جانب سے صوبہ الرقہ میں اپنے زیر کنٹرول علاقوں کے رہائشیوں پر مختلف پابندیوں کے اعلان کے فوری بعد عمل میں آیا تھا۔ القاعدہ سے متاثر یہ تنظیم اس صوبے میں جبھۃ النصرہ اور حزب مخالف کے دیگر گروپوں سے برسر پیکار ہے۔

تنظیم کی جانب سے عائد پابندیاں:
مذکورہ تنظیم نے جو پابندیاں لگائی ہیں، ان میں سے پہلی پابندی تو خواتین کی نقل و حرکت کو محدود کرنے سے متعلق ہے اور ان پر لباس کے ضوابط بھی عائد کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ موسیقی اور دکانوں میں مرد و خواتین کی تصاویر پر پابندی لگائی گئی ہے۔ تیسری پابندی سگریٹ اور شیشہ فروخت کرنے پر ہے اور چوتھی میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ تمام مرد پانچوں نمازیں مساجد میں ادا کریں۔  شامی مشاہدہ مرکز برائے انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ الدولة الإسلامية فی العراق و الشام نے ان پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لئے سزائیں متعارف کرائی ہیں اور مبینہ طور پر ان میں سے بعض سزاؤں پر عمل درآمد بھی کیا گیا ہے۔  ایک عربی نیوز چینل پر 4 مارچ کو الرقہ کے رہائشی محمد الرقاوی کا ایک بیان نشر کیا گیا ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ الخنساء نے گذشتہ ہفتے صوبے میں لڑکیوں کے دو مدارس پر چھاپہ مار کر 15 سے 17 سال کی عمروں کی 10 لڑکیوں کو گرفتار کرلیا اور خواتین کے لباس کے لئے تنظیم کے طے کردہ قوانین سے انحراف کرنے پر انہیں کوڑے مارے۔ مذکورہ چینل کے مطابق ان خلاف ورزیوں میں "نقاب کے اندر سے بھنویں نظر آنا اور بالوں کو موڑنے والا کلپ پہننا وغیرہ شامل تھیں۔

بٹالین کے عواقب:
معتز نے کہا کہ ابتدا میں یہ بٹالین داعش میں شمولیت اختیار کرنے والے غیر ملکی جہادیوں کی بیویوں، بیٹیوں اور بہنوں پر مشتمل تھی۔ تاہم بعد میں اس میں وہ مقامی لڑکیاں بھی شامل ہو گئیں جن کے اہل خانہ پر دباؤ ڈالا گیا تھا یا انہیں نقد رقم کی پیشکش کی گئی تھی کیونکہ الرقہ میں بہت سے لوگوں کے مالی حالات اتنے اچھے نہیں ہیں۔ الدولة الإسلامية فی العراق و الشام نے جنوری میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے ایک ویڈیو نشر کی تھی جس میں تنظیم کی نقاب پوش خواتین کو دکھایا گیا تھا۔ وڈیو میں نظر آنے والی دو خواتین جرمن اور فرانسیسی زبانوں میں جبکہ باقی عربی میں باتیں کر رہی تھیں۔ الشرق مرکز برائے علاقائی و حکمت عملیاتی تعلیم کے محقق 'سمیع الغیط' نے کہا کہ یہ وڈیو تنظیم میں خواتین کی موجودگی اور ان کی سرگرمیوں کا واضح ثبوت ہے اور اس سے گروپ میں شامل خواتین کی مختلف قومیتوں کا انکشاف ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ الرقہ کے رہائشیوں اور الدولة الإسلامية فی العراق و الشام کے عناصر کے درمیان کشیدگیاں بڑھنے کی توقع کر رہے ہیں اور اسی وجہ سے گروپ نے اپنے منظم جبر و تشدد میں اضافہ کر دیا ہے اور تنازعے سے بچنے کی خاطر اپنے بعض اراکین کی مقامی قبائل کی لڑکیوں سے شادیاں کرا دی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 361409
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش