1
0
Thursday 13 Mar 2014 22:45

شہید بابا مزاری (رہ) ایک عظیم رہنماء!

شہید بابا مزاری (رہ) ایک عظیم رہنماء!

رپورٹ: این ایچ حیدری

اُنیس سال پہلے جہالت کے اُن پرستاروں کے ہاتھوں خطے کی ایک عظیم ہستی کی شہادت واقع ہوئی، جن سے آج پاکستان مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے امن کے قیام کے لئے کوششوں میں خود کو مصروف رکھے ہوئے ہے۔ جہالت کا تعلق کسی بھی ملک، خطہ اور علاقہ سے ہو، جہالت اپنی اصل میں تاریکی ہی کی نمائندگی کرتی ہے۔ خیر و شر کے ساتھ ساتھ جہاں ایک طرف علم اور نور کی روشنی پھیلتی رہی ہے، وہاں دوسری طرف ابوجہل کے پیروکاروں کا سفر بھی جاری ہے۔ آپ ذرا آنکھیں کھول کر اِرد گرد دیکھیں تو آپ کو ابوجہلوں کا ہول نظر آئے گا۔ کل تک انہی کے ہاتھوں جب افغانستان میں انسانیت کا خون بہہ رہا تھا، تو ہم سمجھ رہے تھے کہ شاید یہ فرنکسٹائن ہمیشہ کے لئے ہماری غلامی میں ہی رہے گا۔ مگر وقت نے بہت کم وقت میں ہی دونوں اطراف کے چہروں پر سے پردے ہٹا دئیے۔ جو کام افغانستان میں چھ سات برسوں کے دوران جاری رکھا گیا، اس پر تاریخ انسانیت احساسِ ندامت سے سرجھکائے کھڑی ہے۔ امریکہ کے آنے کے بعد وہی کچھ پاکستان کے اندر شروع ہوا، تو سب کو یہ احساس ہونے لگا کہ واقعی یہ ایک ایسا گروہ ہے جن کے سامنے علم، تعلیمی درسگاہیں، جمہوریت، ریاست، آئین اور انسانیت کوئی مفہوم نہیں رکھتا۔ یہ جہلا کا ایک ایسا گروہ ہے، جن کے پورے وجود سے شر برستا ہے۔

ہاں تو میں بات کررہا تھا اُنیس برس قبل بارہ مارچ کے سانحے کی جس دن افغانستان کی ایک ایسی ہستی کو تہہ تیغ کیا گیا، جس کی مثال افغانستان کی پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ دنیا کی تاریخ میں جنگوں کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ جنگوں کے دوران بھی لڑنے، مرنے اور مارنے کے بھی قاعدے قانون ہوا کرتے ہیں۔ دنیا میں شاید ہی کہیں ایسا ہوا ہو کہ مخالف گروہ کے سب سے بڑے لیڈر کو قرآن مجید کو درمیان میں رکھ کر بات چیت یا مذاکرات کے بہانے بلاکر اُسے شہید کیا گیا ہوں۔ مگر طالبان نامی جُہلا نے افغانستان میں یہ کام بھی کر دکھایا۔ بابا عبدالعلی مزاری (رہ) کو مذاکرات کے بہانے کابل کے نواحی علاقے "چہار آساب" بلاکر وہاں انہیں گرفتار کیا۔ جس کے بعد پتہ ہی نہ چلا کہ انہیں کس حال میں اور کہا رکھا گیا ہے۔ مگر ایک دن بعد بی بی سی سے خبر نشر ہوئی کہ بابا مزاری (رہ) اور ان کے دوستوں کو مزاحمت کرنے پر شہید کر دیا گیا ہے اور راتوں رات بابا کی گرفتاری اور شہادت کے مختلف مناظر سعودی عرب کے اخبارات میں شائع ہوئے۔ جب بابا مزاری (رہ) کا جسد مبارک ملا تو لوگوں نے دیکھا کہ کس طرح سے انہیں اور ان کے دوستوں کو اذیتیں دے کر شہید کیا گیا تھا۔ آپ کی شہادت کی خبر پوری دنیا میں آباد شیعہ ہزارہ قوم اور محروم و مظلوم اقوام کی حمایت میں آواز اُٹھانے والی تحریکوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ شیعہ ہزارہ قوم اور دیگر عوام نے بابا مزاری (رہ) کی میت مطہر کو عظیم تاریخی روایات کے مطابق شہر شہر، قریہ بہ قریہ، گاؤں گاؤں پیدل لیکر غزنی سے ہزارستان کے مختلف شہروں سے ہوتے ہوئے مزار شریف تک لے گئے۔ جہاں کئی لاکھ سوگواروں کے مجمع نے انہیں سپرد خاک کیا۔

بابا مزاری (رہ) کی شہادت کی تاریخ سے لیکر آج تک ہر برس دنیا کے مختلف ممالک کے بڑے بڑے شہروں میں آپ کی برسی نہایت عقیدت اور احترام کے ساتھ منائی جاتی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہر سال دنیا کے گوشہ و کنار میں آپ کے چاہنے والے آپ کی سوچ، افکار اور نظریات سے خود کو وابستہ رکھنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ جو آپ کی حیات میں آپ کے سخت ترین مخالف تھے، آپ کی شہادت کے بعد اُن سب پر واضح ہوا کہ واقعی آپ حقیقی معنوں میں ایک عظیم، مخلص، نڈر، باصلاحیت، سچے اور قابل لیڈر تھے۔ آپ کی سوچ اور نظریات میں اتنی وسعت تھی کہ اگر آپ کی باتوں اور آپ کے پروگراموں پر عمل ہوا ہوتا تو نہ صرف افغانستان میں امن و امان قائم ہوتا بلکہ حقیقی اسلامی قانون کے سائے تلے افغانستان کے بدقسمت عوام کی تقدیر بدل جاتی۔ بلکہ افغانستان کے پڑوس میں واقع تمام ممالک پر بھی نہایت مثبت اثرات پڑتے۔

بابا مزاری (رہ) کو پہلے دنیا والے اُستاد عبدالعلی مزاری کے نام سے جانتے تھے۔ ابتدائی تعلیم مزار شریف میں حاصل کرنے کے بعد اعلٰی مذہبی تعلیم کےلئے عازم عراق ہوئے۔ زندگی کا بیشتر حصہ خالصتاً فقہی اور مذہبی رحجانات کو عام کرنے کی کوششوں میں گزارا۔ آپ روسی استعمار کے خلاف لڑنے اور مزاحمت کرنے والوں میں پیش پیش رہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ آپ کی سوچ برابر اس پہلو پر لگی رہی تھی کہ افغانستان کو دیدہ دانستہ طور پر ایک ایسا ملک بنایا گیا ہے، جہاں عوام کو تقسیم در تقسیم کرکے مذہب، قومیت، زبان اور علاقائیت کے نام پر صدیوں سے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے ہوئے ایک مخصوص طبقہ کے مفادات کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ اسی لئے ضروری ہے کہ ملک میں عوام کے مابین غلط فہمیوں، منفی پروپیگنڈوں اور ازخود ساختہ نفرت پر مبنی سوچ کو ختم کرنے کے لئے ایسے اقدامات ہونے چاہیئے کہ عوام ایک دوسرے کے قریب تر ہوں۔ ایک دوسرے کو سمجھنے کے بہتر مواقع پیدا ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ جاہل گروہ طالبان کے وجود میں آنے سے قبل جب تخت ِکابل پر قبضہ کرنے کے لئے تمام گروہ آپس میں دست و گریباں تھے، وہاں بابا مزاری (رہ) کے حکم پر تمام ہزارہ نشین علاقوں میں پشتون اور تاجک عوام کو وہ تمام سہولیات مہیا کرنے کا حکم جاری کیا گیا، جو سہولیات خود ہزارہ قوم کے افراد کو دستیاب تھیں۔ اِس مثبت اور دور اندیشانہ عمل کے نتیجے میں بابا مزاری (رح) کی مقبولیت نہ صرف افغانستان کی شیعہ ہزارہ قوم بلکہ پشتون، تاجک اور دیگر برادر چھوٹی اقوام میں بھی اضافہ ہوا۔ وہ سب استاد عبدالعلی مزاری (رہ) کو بابا کے لقب سے پکارنے لگے۔

تاہم بابا مزاری (رہ) نے ان تمام مخالف اور ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار جماعتوں کو ایک میز پر لاکر حزب وحدت تشکیل دینے میں کامیاب ہوئے۔ اُن کی مقبولیت اور قابلیت سے خائف بعض اندرونی اور بیرونی قوتیں اندر ہی اندر ان کے سخت مخالف ہوگئے تھے۔ مخالفت کا ایک عملی مظاہرہ اُس وقت دیکھنے میں آیا جب حزب وحدت اور شورائی نظار کے مابین سخت جنگ ہو رہی تھی۔ اتنے میں آتش و آہن کے سائے میں پارٹی کے اندر قائد کے انتخاب کا سوال اُٹھایا گیا۔ جسے عوام نے افغانستان کے اندر اور باہر قوم دوست قوتوں کی مدد سے سخت ناکامی سے دوچار کردیا۔ حضرت استاد بابا مزاری (رہ) کی شخصیت سے شاید ۲۹۹۱ء تک کم ہی لوگ آشنا تھے۔ تاہم بعض قوم دوست قوتوں اور تنظیموں کی کوششوں سے جنہوں نے سخت ترین حالات میں بار بار بابا مزاری (رہ) سے جا کر وفود کی صورت کابل میں ملاقاتیں کیں۔ تاکہ یہ پتہ لگایا جائے کہ نئی قیادت کس قابلیت اور استعداد کے مالک ہیں۔ اپنی خاطر تسلی کے بعد انہوں نے بابا مزاری (رہ) کی مثبت اور قائدانہ سوچ کو عام کرنے کے سلسلے میں دن رات ایک کئے۔

قوم دوست افراد اور تنظیم کی کارکردگی کی تعریف خود بابا مزاری (رہ) نے بارہا اپنی گفتگو میں کی ہیں۔ مختلف وفود کی ملاقاتوں کے بعد یہ واضح ہوا کہ حضرت استاد عبدالعلی مزاری (رہ) میں دراصل وہ صلاحیت، جوہر، قابلیت اور استعداد موجود ہے کہ نہ صرف شیعہ ہزارہ قوم بلکہ افغانستان کی تمام محروم اقوام اور ملیتوں کو ان کے حقوق دلانے میں کردار ادا کریں۔ بابا مزاری (رہ) کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ تاریخ کے بدترین موقع پر محروموں کی قیادت کی ذمہ داری ملی۔ ان کو کیا کیا مشکلات در پیش تھیں۔ اس کا آج کی تاریخ میں بھی اندازہ کرنا ناممکن ہے۔ بابا مزاری (رہ) ایک ہی وقت میں کئی محاذوں پر لڑ رہے تھے۔ ان کی وسیع اور عمیق سوچ تک اُس وقت کے بڑے بڑے صاحبانِ جبہ و دستار کی رسائی نہیں تھی۔ بابا مزاری (رہ) کو افغانستان کی تاریخی اور قدیمی مسئلہ کے حل کے لئے وقت بہت کم ملا۔ آپ وہ پہلی شخصیت ہیں کہ جنہوں نے واضح طور پر کہا کہ تمام اقوام کو ان کی آبادی کے تناسب سے حکومت میں نمائندگی دی جائے۔ جب تک افغانستان میں تمام اقوام کو ان کے حقوق نہیں دئیے جاتے، ظلم و استبداد پر مبنی کاخ استبداد زیادہ دیر حکمرانی نہیں کرسکتی۔ بابا مزاری (رہ) نے حالات و واقعات اور سیاسی مذہبی نعروں اور افعال کو دیکھ کر عوام کے لئے واضح کردیا کہ افغانستان میں ہمیشہ سے نعرے مذہبی لگے ہیں، جبکہ عمل قومی بنیادوں پر کیا گیا ہے۔

بابا مزاری (رہ) نے جب ملک کے محروم طبقات کی مشکلات کا مطالعہ کیا، تو دیکھا کہ شیعہ ہزارہ قوم شاید ملک کے سب سے پسماندہ اور مظلوم لوگوں میں شامل ہے چونکہ بابا مزاری (رہ) افغانستان کی گذشتہ تاریخ سے بہت اچھی طرح سے آگاہ تھے۔ اس لئے ظلم و جبر اور بربریت کے تسلسل کو مٹانے کے لئے انہوں نے وہ فارمولہ پیش کیا، جس پر چل کر ملک امن و امان اور خوشحالی کی پٹڑی پر چڑھ سکتا تھا۔ کل ہی کی تو بات ہے جب اقوام متحدہ کے نمائندے محمود مستری نے بابا مزاری (رہ) سے مغربی کابل میں ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد میڈیا کو بابا کی اعلٰی اور تعمیری سوچ سے متعلق انھیں یہ جملہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ افغانستان میں کوئی اِس پایے کے بھی لیڈر ہوں گے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر اُستاد عبدالعلی مزاری (رح) کی سوچ پر عمل ہو تو افغانستان کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل ہوسکتا ہے۔

جبرِ تاریخ دیکھنے کے لائق ہے کہ ایک مظلوم قوم کی صفوں میں سے اس پایے کی قیادت سامنے آتی ہے۔ جو پورے ملک کی نمائندگی کرتی ہے۔ بارہ مارچ کو بابا مزاری (رہ) کو ان کے باوفا دوستوں سمیت دغا بازی سے شہید کر دیا گیا۔ اس کے بعد افغانستان پر کیا قیامت ٹوٹی وہ ناقابل بیان ہے۔ ایک ایک دن میں ہزاروں انسانوں کا قتل عام کیا گیا۔ بامیان کی ہزاروں سال پرانی تہذیب کو ہزاروں ٹن بارودی مواد نصب کرکے تباہ و برباد کردیا گیا۔ افغانستان سے ہر اُس چیز کو مٹانے کی کوشش کی گئی، جس چیز سے انسانی تہذیب اور تمدن کی بو آتی تھی۔ بابا مزاری (رہ) کی شہادت تھی کہ افغانستان میں رہنماء رہبر یا لیڈر نام کی چیز ناپید ہونے لگی۔ جو جہاں نظر آیا تہہ تیغ کیا گیا۔ بابا مزاری (رہ) کی پارٹی جو حقیقی معنوں میں عوام کی پارٹی تھی، وہ لوگوں کے دلوں میں تھی۔ بے شک پارٹی کے بانی قائد کی شہادت کے بعد مشکل ترین مرحلہ درپیش تھا۔ مگر سردار کی شہادت پیروکاروں کی خشک رگوں میں تازہ اور گرم لہو دوڑانے کے لئے کچھ کم نہیں ہوتی۔ مگر آہ! بدنصیب ملت کہ شہید رہبر کی جماعت کو سنبھالنے والا کوئی نہ رہا۔ سربراہ کے جانے کے بعد ہرکسی نے اپنا حصہ الگ کر ڈالا۔ میراثِ پدر کئی ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ چند سال بعد جب نونہالِ جمہوریت پنپنے لگا تو شہید باپ کے جانشینوں میں کوئی ایسا قابل جانشین نہ ملا جو نئے حالات اور نئے مسائل کو حل کرنے کی استطاعت رکھتا۔

نتیجہ وہی کہ شہید باپ کے خون پر صدارت کی کرسی کے دوسرے معاون کی حیثیت تو اپنائی گئی مگر افسوس کہ بابا کے جادہ حیات یا نقش قدم پر چلنے کی کسی نے کوشش نہیں کی۔ برائے نام جمہوریت کے آتے ہی عوامی مسائل یا عوامی شعوری بیداری کا کام بالکل مفقود رہا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر برائے نام جمہوریت کے گذشتہ تیرہ چودہ برسوں کے دوران حقیقی عوامی مسائل پر توجہ دی گئی ہوتی تو آج شاید عوام امریکیوں کے جانے کے بعد اس قدر تشویش میں مبتلا نہ ہوتے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہرسال بارہ مارچ منانے والے دنیا کے ہزاروں لاکھوں افراد اگر بابا مزاری (رہ) کے حقیقی وارث اور انقلابِ اسلامی کے سانچے میں ڈھل کر ان کی سوچ کو آگے لیجانے کا عہد کریں تو وہ دن دور نہ ہوگا کہ جن اعلٰی و ارفع مقاصد کی خاطر انہوں نے جام شہادت نوش کیا، وہ مقاصد جلد ہی ہاتھ آئیں۔

خبر کا کوڈ : 361428
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Beshak baba mazari (ra) Afghanistan ki tarikh ka aik aham hisaa hy,
Lykin afsoos Jessa k app ny bataya , unke chand androni o Berooni dushmano k waja sy .. Inqilab islami ka aik Azem sipahi ko dookhey sy shaheed Kia Gaya.
ہماری پیشکش