0
Friday 14 Mar 2014 16:10
دشمن کا علاج صرف آپریشن ہے مذاکرات کے نام پر وہ اپنے آپکو تیار کر رہے ہیں

طالبان سے مذاکرات کی حمایت وہ لوگ کر رہے ہیں جنکے گھر میں شہادت کا نام تک نہیں، نور محمد

طالبان سے مذاکرات کی حمایت وہ لوگ کر رہے ہیں جنکے گھر میں شہادت کا نام تک نہیں، نور محمد
پشاور میں شہید ہونے والے پاک فوج کے جوان میجر جہانزیب عدنان کے والد لیفٹینٹ کرنل (ریٹائرڈ) نور محمد نے پاک فوج میں خدمات انجام دینے کے بعد اپنے بیٹے کو بھی ملک کی خدمت کے لیے پاک فوج میں بھرتی کرایا، اپنی ملازمت کے دوران اُنہوں نے ملک بھر میں اپنے فرائض انجام دیئے، بظاہر بوڑھے مگر جوان ہمت اس ریٹائرڈ فوجی افسر سے اسلام ٹائمز نے اُن کے بیٹے کی شہادت اور اُسکی زندگی کے حوالے سے ایک خصوصی انٹرویو کیا جو کہ قارئین کی خدمت میں حاضر ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے ''اسلام ٹائمز '' آپ کو آپ کے بیٹے کی شہادت پر تعزیت اور مبارکباد پیش کرتا ہے۔ خدا کی اس نعمت پر آپ کے کیا جذبات ہیں۔؟
نور محمد: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ بہت شکریہ آپ کا اور آپ کے ادارے کا۔ میں یقیناً مبارک باد کا مستحق ہوں کہ جو رُتبہ اور مقام میرے بیٹے جہانزیب کو ملا ہے وہ ہر فوجی کے دل کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے، جب میں پاک فوج میں تھا تو اپنے لیے دعا کرتا تھا کہ خدا مجھے اپنے ملک پر قربان ہونے کا موقع عطا کرے، لیکن جو رُتبہ اور مقام مجھے نہ مل سکا، وہ میرے بیٹے کو حاصل ہوا۔ جہاں تک نعمت کی بات ہے تو مجھے میرے بیٹے نے وہ مقام عطا کیا ہے کہ میرا سر فخر سے بلند ہوگیا ہے اور میرا مقام اُس نے بڑھا دیا ہے کیونکہ لوگ اب مجھے شہید کا والد کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، جس پر میں خدا کا ممنون و مشکور ہوں۔

اسلام ٹائمز: آپ شہید
کے والد ہیں، میجر جہانزیب عدنان نے کبھی آپ کو اپنے مشن کے حوالے سے بتایا ہو۔؟

نور محمد: جی ہاں، جب جہانزیب چھٹیوں پر گھر آتا تھا تو دیگر فیملی کے ساتھ ساتھ میرے ساتھ دیر تک باتیں کرتا رہتا اور مشن کے حوالے بتاتا کہ بابا اس بار میں نے یہ مشن انجام دیا ہے اور اس بار میں نے اپنے وطن کی حفاظت اور دشمنوں کی نابودی کے لیے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ جب وہ یہ ساری باتیں بتاتا تو اُس کے چہرے پر خوشی کے آثار نمایاں ہوتے، اُس کی باتوں سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ وہ کس قدر اپنے ملک اور قوم کے لیے کردار ادا کر رہا تھا۔ یہاں ایک بات جو وہ ہر بار مجھے بتاتا تھا کہ بابا جان میری کور میں جتنے بھی جوان ہیں، اُن سب کی یہ خواہش ہے کہ وہ اپنے ملک کی خاطر قربان ہو جائیں۔

اسلام ٹائمز: میجر جہانزیب شہید نے اپنے آخری مشن کے حوالے سے آپ کو کچھ بتایا تھا۔؟
نور محمد: یہ جو آخری مشن تھا جس کے بعد وہ طالبان کی ہٹ لسٹ پر آیا اور باقاعدہ طور پر جو طالبان کی کال ریکارڈ کی گئیں، اُنہوں نے اپنے ساتھیوں کو کہا تھا کہ میجر جہانزیب عدنان نے ہمارا بہت نقصان کیا ہے، لہذا اب اسے قتل کر دیا جائے۔ آخری مشن جو اُسے سونپا گیا، وہ ایک طالبان کمانڈر کو ختم کرنے کا تھا، جس نے اپنا نام علی رکھا ہوا تھا، اور لوگ اُسے حضرت کے نام سے بلاتے تھے، میجر جہانزیب عدنان نے بتایا کہ جس رات اُس نے آپریشن کے لیے جانا تھا کہ اُس نے غسل
شہادت کیا جو کہ وہ ہر آپریشن سے پہلے کرتا تھا، اُس نے اپنے ساتھیوں کو مختصر بریفنگ دی اور آپریشن کی جانب نکلا، جہانزیب عدنان نے اپنے اس آپریشن میں اپنے ٹارگٹ کو نشانہ بنایا، جس میں کئی ملک دشمن غیر ملکیوں کو ہلاک کیا، جس کے بعد میجر جہانزیب عدنان دشمن کی آنکھوں کا کانٹا بن گیا اور اسے شہادت نصیب ہوئی۔

اسلام ٹائمز: میجر جہانزیب کی شہادت کے بعد کن کن رہنمائوں کی جانب سے تعزیت کی گئی۔؟
نور محمد: ویسے تو تمام جماعتوں کے رہنمائوں نے میڈیا پر تعزیت کی، لیکن جن رہنمائوں نے میرے گھر پر آ کر تعزیت کی اُن میں سابق وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی، تحریک انصاف کے رہنما سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی، مخدوم جاوید ہاشمی، وفاقی وزیر چوہدری عابد شیر علی، مجلس وحدت مسلمین کے علامہ اقتدار حسین نقوی اور کئی اہم رہنما شامل ہیں، جنہوں نے یہاں پر آکر تعزیت کی، میں اُن سب کا مشکور ہوں جنہوں نے مجھے حوصلہ دیا۔

اسلام ٹائمز: آپ کے بیٹے کی شہادت پر وہ لوگ بھی آئے جو طالبان کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں، ایک طرف وہ طالبان سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف طالبان کی کارروائیوں میں شہید ہونے والے جوانوں کی شہادت پر تعزیت کرتے ہیں۔؟
نور محمد: آپ نے ٹھیک کہا، میرے بیٹے کی شہادت پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما تعزیت کرنے آئے جو کہ طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور اُن سے مذاکرات
کے خواہاں ہیں، میں نے ملاقات کے دوران کہا کہ آپ کو ظالم یا مظلوم کا ساتھ دینا چاہیے، اب وقت سیاست کا نہیں ہے، اگر آپ نے ظالم کا ساتھ دینا ہے تو کھل کر دیں اور اگر مظلوم کی حمایت کرنی ہے تو کھل کر کریں، لیکن پتہ نہیں یہ کس چیز کے ہاتھوں مجبور ہیں، سیاستدان جب شہداء کے گھروں میں جاتے ہیں تو طالبان کے خلاف بات کرتے ہیں اور جب خلوتوں میں جاتے ہیں تو پھر اُنہی کی زبان بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ ہم آپ کے بیٹے کی شہادت پر آپ کے غم میں برابر کے شریک ہیں، لیکن اُنہوں نے میڈیا میں پھر وہی بات کی کہ پاکستان تحریک انصاف ان طالبان سے مذاکرات کے حق میں ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں قیام امن مذاکرات سے ممکن ہے یا آپریشن سے۔؟
نور محمد: دیکھیں امن امن کا راگ الاپا جا رہا ہے، لیکن ان سیاستدانوں میں سے کوئی بھی اس حوالے سے مخلص نہیں ہے، مذاکرات کس کے ساتھ کئے جا رہے ہیں، یہ پوری قوم کیا پوری دنیا جانتی ہے اُن لوگوں سے مذاکرات کی بھیک مانگی جا رہی ہے، جنہوں نے اس ملک کے سیاستدان، پاک فوج، ایف سی، پولیس، سکیورٹی اداروں کے اہلکار، وکلاء، ججز، سول سوسائٹی، علمائے کرام حتی کہ معصوم اور نہتے شہریوں کو بھی نہیں بخشا، مساجد، امام بارگاہیں، گرجا گھر، چرچ اور دیگر عبادات کی جگہوں کو نشانہ بنایا گیا، جس میں کئی لاکھ بے گناہ، معصوم اور نہتے شہری شہید
ہوئے، آپ نے اور پوری قوم نے دیکھا کہ طالبان کس طرح سے ہمارے ایف سی کے جوانوں کو شہید کرتے ہیں اور سر تن سے جدا کرتے ہیں، یہ اُسی یزیدی ٹولے سے تعلق رکھتے ہیں، جنہوں نے نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام اور اُن کے اصحاب و انصار کو شہید کیا، پھر اُن کے سروں کو تن سے جدا کیا۔ آپ نے دیکھا کہ میجر جہانزیب کی شہادت کے بعد جب پاک فوج نے جہانزیب عدنان آپریشن کیا تو طالبان مذاکرات کی میز پر دوڑے آئے۔ اصل مسئلہ طالبان نہیں بلکہ پاکستان میں موجودہ سیاسی جماعتیں ہیں، جن کے مفادات ان طالبان سے وابستہ ہیں جب بھی کوئی کارروائی ہوتی ہے تو ان کے دل میں درد شروع ہو جاتا ہے، جبکہ دوسری جانب طالبان ہمارے جوانوں کے ساتھ جو سلوک کریں وہ اُنہیں نظر نہیں آتا، میں سمجھتا ہوں کہ ان دشمنوں کا علاج آپریشن ہے مذاکرات کے نام پر وہ اپنے آپ کو تیار کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: طالبان سے مذاکرات کونسا مائینڈ سیٹ کرنا چاہتا ہے۔؟
نور محمد: طالبان سے مذاکرات وہ ٹولہ کرنا چاہتا ہے جس کا پاکستان بنانے اور بچانے میں کوئی کردار نہیں ہے۔ مذاکرات کی حمایت وہی کر رہے ہیں جن کے گھر میں شہادت تک کا نام ہی نہیں، مذاکرات کے حامی قربانی سے ڈرتے ہیں، اسی لیے طالبان اور ملک دشمن قوتوں کی منتیں کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا مائینڈ سیٹ ہے جس کی سیاست دہشت گردی اور فرقہ واریت پر مبنی ہے، لیکن ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ ان انسانیت
کے دشمن اور ملک کو خانہ جنگی میں دھکیلنے والے طالبان سے مذاکرات کی حمایت کرنے والوں کے چہرے سامنے آگئے ہیں کہ ظالم کے ساتھی کون ہیں اور مظلوم کے کون۔

اسلام ٹائمز: آپ ایک شہید کے والد ہیں، آپ طالبان اور قوم کو کیا پیغام دیں گے؟
نور محمد: جی میرا ایک پیغام طالبان کے لیے ہے اور دوسرا پیغام اپنی قوم کے نام پر ہے، سب سے پہلے طالبان کے نام پیغام یہ ہے کہ جب تک اس ملک میں ایک بھی غیرت مند اور جرات مند نوجوان موجود ہے، وہ ملک کے خلاف ہونے والی ہر کارروائی کا منہ توڑ جواب دیں گے، آپ نے میرا بیٹا شہید کیا، لیکن میرے ساتھ لاکھوں فوجیوں کے والدین نے آج بھی لاکھوں جوانوں کو ملک کی حفاظت کے لیے سرحدوں پر بھیجا ہے، ہم امام حسین علیہ السلام کے ماننے والے ہیں، ہمیں یہ شہادت ڈرا نہیں سکتی اور انشاءاللہ جیت حق کی ہوگی۔ ظالم اور ظلم مٹنے والا ہے اور مظلوم طاقتور ہونے والا ہے۔ میرا دوسرا پیغام اپنی قوم کے نام ہے، میں اپنی پوری قوم کو سلام پیش کرتا ہوں، جنہوں نے میرے غم کو اپنا غم سمجھا اور شہید جہانزیب کی شہادت پر ایک بار پھر ایک ہو کر آواز حق بلند کی۔ میں پوری قوم سے ایک گزارش کروں گا کہ ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اُٹھوگے اُتنی بڑی قربانی دینی پڑے گی، ہمیں اپنے ملک کو بچانے کے لیے ہر قسم کے اختلاف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک صف میں کھڑا ہونا ہے، ہمارا اتحاد ہی قوم اور ملک کے مفاد میں ہے۔
خبر کا کوڈ : 361606
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش