0
Monday 17 Mar 2014 09:48

مقبوضہ کشمیر، جواں سال بیٹی والد کی واپسی کی منتظر 1996ء میں قابض فوج اٹھاکر لے گئی

مقبوضہ کشمیر، جواں سال بیٹی والد کی واپسی کی منتظر 1996ء میں قابض فوج اٹھاکر لے گئی
اسلام ٹائمز۔ 1996ء میں فوج کے ہاتھوں لاپتہ ہوجانے والے مقبوضہ کشمیر کے وسطی ضلع بڈگام کے غلام محی الدین کا آج تک کوئی سراغ نہیں ملا ہے، باپ کے دیدار کیلئے جواں سال بیٹی شاہینہ بانو آج بھی اُس راہ کو تک رہی ہے جہاں سے فوج کی 20 آر آر اسے لے گئی تھی، شاہینہ کا ارباب اقتدار سے سوال ہے کہ اس کا باپ کہاں ہے اور کیوں فوج سے اس بارے میں دریافت نہیں کیا جاتا، ڈور بڈگام کی شاہینہ نے بتایا کہ سال 1996ء میں اُس کے والد غلام محی الدین ڈار کو اس وقت فوج کی 20 آر آر گھر سے اٹھا لے گئی جب وہ گھر کا کام کررہے تھے، اس نے بتایا کہ آر آر سے وابستہ اہلکاروں نے اُن کے مکان پر چھاپہ مارا اور ایک میجر جس نے اپنا نام سلیم خان رکھا تھا، نے اہلکاروں کو حکم دیا کہ اس آدمی کو گاڑی میں ڈالو، اس کا کہنا تھا ’’ ہم چیخ و پکار کرتے رہے کہ ہمارے والد کو چھوڑ دو لیکن ہمارے رونے کی آوازیں فوج نے نظر انداز کر کے ہمارے والد کر اٹھا کر اپنے ساتھ لیا اور تب سے اب تک اُن کا کوئی اتہ پتہ نہیں‘‘، شاہینہ نے بتایا 18 سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی والد کا کوئی پتہ نہ چل سکا ہے، میری والدہ حاجرہ بیگم اور چھوٹا بھائی فاروق احمد ڈار کئی مرتبہ اُن کی تلاش میں پولیس اسٹیشن اور فوجی کیمپ گئے لیکن صرف یہی کہا گیا کہ وہ جلد آجائے گا، شاہینہ کا کہنا ہے کہ اگر اس کے والد زندہ ہیں تو کہاں ہیں اور اگر ان کو مار دیا گیا ہے تو اُن کی لاش کیوں ابھی تک واپس نہیں کی گئی۔

شاہینہ نے بتایا کہ انہوں نے اپنے والد کی تلاش کے سلسلے میں کئی مرتبہ حکومت سے بھی گزارش کی لیکن صرف یقین دہانیوں کے سوا کچھ نہیں ملا، ہم انصاف چاہتے ہیں اور جس فوجی افسر نے میرے والد کو اپنے ساتھ لیا اُس کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں، شاہینہ کو شکایت ہے کہ ان کی مدد کسی نے نہیں کی اور ہر ایک جگہ سے انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، اس کا کہنا ہے کہ والد کے چلے جانے کے بعد گھر کا نظام بری طرح سے متاثر ہوگیا اور اہل خانہ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئے، شاہینہ نے کہا کہ اس وقت ہمارے گھر میں میرے علاوہ 4 بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی ہے، والد کا سر سے سایہ اٹھ جانے کے بعد بھائی نے محنت مزدوری کر کے ہمارا پیٹ پالا لیکن مہنگائی کے اس دور میں کمسن بھائی کیلئے سب لوگوں کی کفالت کرنا مشکل ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس کی والدہ حاجرہ بیگم والد کا انتظار کرتے کرتے تھک ہار چکی ہے اور وہ ہمیشہ یہی دہائی دیتی رہتی ہے کہ اگر وہ زندہ ہیں تو واپس کیوں نہیں آتے اور اگر مار دیا گیا ہے تو لاش کیوں نہیں دی جارہی ہے، شاہینہ کہتی ہیں اب 20 آر آر کے کیمپ کا بھی کوئی پتہ نہیں جسے کہیں دوسری جگہ منتقل کردیا گیا ہے کہ نہ جانے والد کو لیجانے والے فوجی اہلکار کہاں ہیں اور ان کا کیمپ کہاں گیا، ہمیں اس بارے میں بھی کوئی پتہ نہیں۔
خبر کا کوڈ : 362540
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش