0
Wednesday 26 Mar 2014 11:36

بلوچستان میں‌ بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ پر ارکان اسمبلی برہم

بلوچستان میں‌ بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ پر ارکان اسمبلی برہم

رپورٹ: این ایچ حیدری

بلوچستان اسمبلی کے ارکان نے وفاقی حکومت پر زور دیا ہے کہ بلوچستان سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرکے بجلی کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ کیسکو حکام عوام کے استحصال کی بجائے فلاح و بہبود اور بجلی کی فراہمی اور لوڈشیڈنگ کے خاتمے کیلئے اقدامات اٹھائیں۔ لوڈشیڈنگ کے باعث بلوچستان کے عوام کا معاشی قتل ہو رہا ہے، انہوں نے ان خیالات کا اظہار تحریک التواء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کیا۔ اس سے قبل پشتونخواملی عوامی پارٹی کے آغا سید لیاقت علی نے سردار غلام مصطفٰی خان ترین، عبیداللہ جان بابت، رحمت صالح بلوچ، منظور احمد کاکڑ اور ہینڈری بلوچ کی قرارداد ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ تھرمل پاور اسٹیشن کو سابق دور حکومت میں بعض بیوروکریٹس کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے 94.5 میگاواٹ کو واپڈا اتھارٹی نے بلاجواز طور پر بند کردیا ہے۔ اس طرح تھرمل پاور اسٹیشن کے 465 میں سے 300 ملازمین کو سرپلس کردیا گیا اور صوبہ بلوچستان کو ایک فعال تھرمل پاور اسٹیشن سے محروم کر دیا گیا۔ جس سے بلوچستان کے عوام، زمینداروں کے ساتھ واپڈا کو بھی اربوں روپے کا نقصان پہنچا۔ کوئٹہ تھرمل کی دو مشینیں جو گیس اور کوئلے سے جلتی تھیں اور جس کی وجہ سے تھرمل اسٹیشن میں ماہانہ ساڑھے چار سے چھ ہزار ٹن کوئلے کی کھپت تھی۔ تھرمل اسٹیشن کی بندش سے بلوچستان کے کوئلے کی صنعت بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی اور ہزاروں کانکن بےروزگار ہوگئے۔ لہذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ جس طرح سندھ میں لاکھڑا کے مقام پر تھرمل پاور اسٹیشن کو اسٹاف کے ہمراہ بحال کیا گیا۔ اس طرح بلوچستان میں بھی کوئٹہ تھرمل کے بند یونٹوں کو بمعہ اسٹاف بحال کیا جائے اور کوئٹہ تھرمل میں مزید 200 سے 300 میگاواٹ کے نئے یونٹس لگائے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ تھرمل اسٹیشن 1960ء کی دہائی میں قائم کیا گیا تھا اور آہستہ آہستہ اس کی کپیسٹی میں اضافہ کیا گیا۔ مگر پھر آہستہ آہستہ اس کے یونٹ بند کر دیئے گئے۔ صوبے کو دانستہ طور پر نقصان پہنچایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ اور پنجاب میں آج بھی کئی تھرمل پاور اسٹیشن کام کر رہے ہیں۔ اگر وہاں پر یہ چل سکتے ہیں تو بلوچستان میں بھی چلائے جائیں اور اس سلسلے میں وزیراعلٰی ایک کمیٹی بنائیں۔ جو اس حوالے سے معاملات طے کرے۔ وزیراعلٰی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ ابھی انہوں نے کیسکو حکام کو بلایا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ 3 میں سے 2 انجن ناکارہ ہو چکے ہیں اور ایک سے 25 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ ایکنک کے اجلاس میں بجلی کے منصوبے آتے ہیں۔ تاہم بجلی کی تیاری کی پیداواری لاگت زیادہ ہے۔ ماضی میں ہمارا اپنا پاور اسٹیشن تھا۔ جس کی ایک مشین پنجگور لے جاتے ہوئے مستونگ کے علاقے میں گاڑی الٹ گئی ہماری مشکلات کا آغاز وہیں سے ہوا۔ سردار عبدالرحمن کھیتران نے قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ 25 میگاواٹ بجلی کافی ہوتی ہے۔ کوئٹہ شہر کی ضرورت 35 میگاواٹ ہے۔ 25 میگاواٹ ملنے سے کوئٹہ میں کچھ مسائل کم ہوں گے۔ انہوں نے زور دیا کہ میختر اور رکھنی میں بھی تھرمل پاور اسٹیشن لگائے جائیں۔ اس موقع پر اسپیکر نے تجویز دی کہ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے قرارداد کے محرکین اور اپوزیشن سے سردار عبدالرحمن کھیتران کو شامل کیا جائے۔ صوبائی حکومت اس حوالے سے کام تیز کردے۔

اجلاس میں 17 مارچ میں باضابطہ شدہ تحریک التواء نمبر 1 پر عام بحث میں حصہ لیتے ہوئے انجینئر زمرک خان نے کہا کہ ہم نے ماضی میں بھی تجویز دی تھی کہ ہمارے پاس اپنے وسائل ہیں۔ جب تک خود بجلی پیدا نہیں کریں گے، تب تک ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ صرف بجلی نہیں بلکہ دیگر شعبوں میں بھی ہم سے ناانصافی ہو رہی ہے۔ ہم تھرمل اور ونڈ پاور سے بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔ ہم کب تک رونا روتے رہیں گے کہ وفاق ہم سے ناانصافی کر رہا ہے۔ ہماری ضرورت کا نصف بھی ہمیں فراہم نہیں کیا جا رہا ہے۔ گڈانی میں جو پاور پارک بنایا جا رہا ہے۔ اس کی بجلی بھی پنجاب کو ملے گی۔ انہوں نے تجویز دی کہ صوبے میں بجلی کے منصوبوں کیلئے 10 سے 15 ارب روپے مختص کئے جائیں۔ پشتونخواملی عوامی پارٹی کے منظور کاکڑ نے کہا کہ ہمارے صوبے میں 70 فیصد عوام کا ذریعہ معاش زراعت سے وابستہ ہے۔ بجلی نہ ہونے سے صورتحال تشویشناک ہوگئی ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے نیچے گر رہی ہے۔ وزیراعظم نے زمینداروں کیلئے سبسڈی کا اعلان کیا ہے۔ اس پر جلد عملدرآمد کرایا جائے۔ کوئٹہ کے نواحی علاقوں بلیلی، کچلاک اور ہنہ اوڑک میں کوئٹہ شہر کے برابر بجلی فراہم کی جائے۔ پشتونخواملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرے نے کہا کہ خشک سالی کے بعد بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ نے صورتحال مزید سنگین کردی۔ زرعی شعبہ تباہ ہو چکا ہے۔ اگر صورتحال پر جلد توجہ نہ دی گئی تو ایک بار پھر عوام اور زمیندار احتجاج کریں گے۔ ہمیں صوبے میں مزید ٹرانسمیشن لائنوں کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ صرف کوئٹہ میں ٹیوب ویلوں کے ذریعے جتنا پانی نکالا جا رہا ہے۔ وہ ایک نہر کے برابر ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے محمد خان لہڑی نے کہا کہ اوچ پاور کے بعد اس کا دوسرا پروجیکٹ بھی مکمل ہونے والا ہے۔ مگر وہاں سے نصیرآباد کو بجلی فراہم نہیں کی جا رہی۔ 12 سے 16 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ناقابل برداشت ہے۔ صوبائی مشیر عبیداللہ جان بابت نے کہا کہ لوڈشیڈنگ ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔ کئی علاقوں میں تو چوبیس چوبیس گھنٹے بجلی بند رہتی ہے۔ کاریزات خشک ہو چکے ہیں۔ سندھ پنجاب اور کے پی کے، کے مقابلے میں بلوچستان میں لوڈشیڈنگ زیادہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے پرنس احمد علی نے کہا کہ سولر انرجی سے متعلق معاہدہ قابل تحسین ہے تاہم لسبیلہ میں ونڈ کوریڈور موجود ہے۔ جس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے غلام دستگیر بادینی نے کہا کہ نوشکی میں چوبیس گھنٹے میں بمشکل تین گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ کوئٹہ تھرمل کے ساتھ مچھ اور چمالنگ میں پاور ہاؤس بنا کر کوئلے سے چلائے جائیں۔ صوبائی مشیر خزانہ میر خالد خان لانگو نے کہا کہ مختلف فصلوں اور باغات کی تیاری کے موقع پر لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ وولٹیج میں کمی بیشی سے مشینری جل جاتی ہے۔ اگر مسئلے پر توجہ نہ دی گئی تو زمیندار تباہ ہو جائیں گے۔ جمعیت علماء اسلام کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ لوڈشیڈنگ کی یہ صورتحال ہے کہ میرے ضلع میں چوبیس گھنٹے بعد تین گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ میرے علاقے میں خشک سالی کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ وزیراعلٰی وہاں پر ٹیم بھیجیں۔

نیشنل پارٹی کی ڈاکٹر شمع اسحاق نے کہا کہ بلوچستان میں بجلی کے بغیر پانی کا حصول ممکن نہیں اور پانی کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے تحت ہم خود بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔ ڈپٹی اسپیکر عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ میرے حلقے میں تو بجلی کی لائن ہی نہیں۔ وزیراعظم نے زلزلے کے بعد آواران کے دورے کے دوران اس بات پر خود افسوس کا اظہار کیا تھا اور آواران کو سولر انرجی سے بجلی کی فراہمی کا اعلان کیا تھا۔ اس پر عملدرآمد کرایا جائے۔ زلزلے سے سرکاری انفراسٹرکچر بری طرح تباہ ہوا ہے۔ اس پر توجہ دی جائے۔ آغا لیاقت علی نے کہا کہ لوڈشیڈنگ کیساتھ ساتھ ہمارے علاقے میں بجلی کی تقسیم کار بھی درست نہیں۔ اول تو بجلی نہیں، اگر تھوڑی بہت دی جاتی ہے تو وولٹیج کم ہوتی ہے۔ جس سے مشینیں نہیں چلتیں یا اکثر اوقات جل جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اوچ پاور پلانٹ 5 سو میگاواٹ بجلی پیدا کرتا ہے۔ جس سے پہلے نیشنل گریڈ میں ڈال کر بعد میں بلوچستان کو دی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے 6 فیصد بجلی لائن لاسزز کے باعث ضائع ہو جاتی ہے۔ ہم تجویز دیتے ہیں کہ اوچ پاور پلانٹ سے براہ راست بلوچستان کو بجلی دی جائے۔ ڈاکٹر حامد اچکزئی نے کہا کہ ورسک اور تربیلا بجلی گھر میں فی یونٹ دو روپے جبکہ آئل اور گیس سے 13 روپے فی یونٹ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ واپڈا ان سب کو ملا کر بعد میں 14 روپے فی یونٹ کے حساب سے بیچ دیتے ہیں۔ یہ بھی لوٹ کھسوٹ کا ذریعہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ بجلی کی کھپت میں اضافہ کیلئے ڈیرہ اسماعیل خان ژوب ٹرانسمیشن لائن بچھائی جائے اور کوئلے اور گیس کو استعمال میں لاکر بجلی پیدا کی جائے۔ مولوی معاذاللہ نے کہا کہ بجلی پورے صوبے کا مشترکہ مسئلہ رحمت کی بجائے زحمت بن گئی ہے۔ موسیٰ خیل کوہلو، بارکھان کے اکثر علاقوں میں لائن بھی موجود نہیں اور جہاں لائن بچھائی گئی وہاں بجلی نہیں۔ واپڈا حکام جس شخص سے ناراض ہوتے ہیں کئی دنوں تک پورے علاقے کی بجلی بند کر دیتے ہیں۔ ہینڈری مسیحی نے کہا کہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان معاشی بحران سے دوچار ہے۔ بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔ سیزن میں بجلی غائب ہونے کی وجہ فصلات رہ جاتی ہیں۔ چشمے اور کاریزات خشک ہو گئے ہیں۔ ہر سال لوڈشیڈنگ میں کمی کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔ سردار مصطفیٰ ترین نے کہا کہ پورے ملک میں بجلی کا مسئلہ ضرور ہے۔ مگر ہمارے ساتھ زیادتی کچھ زیادہ کی جا رہی ہے۔ پچھلے سال محمود خان اچکزئی نے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف سے ایک مسئلے پر بات کی۔ جس پر انہوں نے 10 گھنٹے بجلی فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ جس پر عملدرآمد بھی شروع ہوا۔ لیکن تخریبکاروں نے ٹاور اڑائے جس کی وجہ سے سلسلہ دو ماہ تک معطل رہا۔ انہوں نے کہا کہ زمیندار بھی احتجاج کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اگر وہ باہر نکلیں تو اسمبلی میں آکر ہمارا گریباں ضرور پکڑیں گے۔ ان کا احتجاج برحق ہے۔ حکومت کم سے کم 10 گھنٹے بجلی کی فراہمی کیساتھ ساتھ لائنوں کے تحفظ کیلئے بھی اقدامات اٹھائے۔

رحمت بلوچ نے کہا کہ اگر ہم نے درست اقدامات نہ اٹھائے تو مایوسی میں کمی کی بجائے مزید اضافہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ واپڈا ٹیکنیکل طریقہ سے کرپشن کررہا ہے۔ زمینداروں، وفاقی اور صوبائی حکومت سے پر ٹیوب ویل 30 ہزار روپے لے رہا ہے جبکہ ہمیں کہا جا رہا ہے کہ ہم زمینداروں کو سبسڈی دے رہے ہیں۔ بجلی نہ ہوگی تو روزگار نہیں ہوگا، لوگ اسمگلنگ کرنے پر مجبور ہونگے۔ ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔ وفاقی کیساتھ دو ٹوک الفاظ میں بات کی جائے۔ عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ بجلی کی فراہمی کیلئے انفراسٹرکچر نہ ہونے کے برابر ہے۔ بجلی 16 سو میگاواٹ ضرورت جبکہ لائنیں 6 سو میگاواٹ بجلی دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مسائل حل نہ ہونے کی بجائے میڈیا بھی ہے۔ ہماری حکومت اور اسمبلی کو نظرانداز کر رہی ہے۔ اخبارات کو چلانے کیلئے 24 کروڑ روپے دے رہے ہیں لیکن وہ ہمارے کاموں اور کارکردگی کو اجاگر کرنے میں کردار ادا نہیں کر رہے۔ انہوں نے تنبیہ کی کہ اخبارات کا یہی رویہ جاری رہا تو انہیں کوئی اشتہار نہیں دیا جائے تو اس رقم سے اپنا اخبار نکالیں گے۔ انہوں نے کہا کہ خوست میں گیس پیدا ہوئی ہے۔ مگر کہا جا رہا ہے کہ وہ زہریلی ہے۔ جو گھریلو استعمال کیلئے درست نہیں۔ یہ گیس صرف سیمنٹ اور بجلی پیدا کرنے کے پلانٹ میں استعمال کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس 5 سو میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔ ہماری کمپنی اس گیس سے بجلی پیدا کرکے دے۔

انہوں نے کہا کہ تھرمل سے کوئٹہ سے ٹھیک ٹاک بجلی مل رہی تھی لیکن ایک بریگیڈیئر نے پورے تھرمل کو نیلام کیا۔ انہوں نے کہا کہ کیسکو میں جتنی کرپشن ہو رہی ہے، اتنی پورے صوبے میں نہیں ہو رہی۔ کرپشن کو کنٹرول کرنے کیلئے کوئی سسٹم موجود نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم وسائل کے مالک ہیں لیکن ہمیں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اگر کوئی اس خام خیالی میں رہے گا ہم ان کے مشکور ہونگے۔ یہ ان کی بھول ہے۔ ہمیں اپنے وسائل پر اپنا اختیار اور حق ہر حال میں ملنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ سے پہلے ہم نے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو یہ کہا تھا کہ چونکہ ہم فوری طور پر اسکیمات فیڈرل، پی ایس ڈی پی کیلئے اسکیمات جمع نہیں کرسکیں۔ لہٰذا ہمارے لئے رقم رکھ دی جائے تاکہ ہم بجٹ کے اپنی اسکیمات دے دیں اس وقت ہم نے اسکیمات دی ہیں لیکن بیوروکریسی وزیراعظم کے احکامات کو بھی ماننے سے گریزاں ہے اور ہمیں پی ایس ڈی پی مد میں رقم جاری نہیں کر رہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو مطمئن کرنا ہوگا۔ ورنہ مسائل حل نہیں ہونگے۔ واپڈا کے ڈی جی اور اے سی لاہور حیدرآباد میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ انہیں کوئٹہ میں بیٹھنا پڑے گا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ بجلی کے مسئلے کے فوری حل کیلئے ڈیرہ اسماعیل، ژوب کوئٹہ ٹرانسمیشن لائن بھجائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے۔ جو اسلام آباد جاکر حکام سے دوٹوک بات کریں۔ اس موقع پر اسپیکر نے میر قدوس بزنجو نے عارفہ صدیقی کی تحریک التواء کو قرار میں تبدیل کرکے ایوان سے منظوری لی۔ جس کے ایوان متفقہ طور پر منظوری دی۔

خبر کا کوڈ : 365889
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش