0
Friday 11 Apr 2014 17:19

مذاکرات کے مسئلہ پر طالبان کے درمیان جنگ

مذاکرات کے مسئلہ پر طالبان کے درمیان جنگ
رپورٹ: کے آئی خان

جنوبی وزیرستان سمیت ایف آر ٹانک اور ضلع ٹانک میں طالبان کے دو بڑے گروپوں میں ہونیوالی مسلح جھڑپیں شدت اختیار کر گئی ہیں۔ مختلف ذرائع سے موصول ہونے والی رپورٹس کے مطابق حکیم اللہ محسود گروپ اور ولی الرحمن گروپ میں اعلانیہ جنگ جاری ہے۔ جس میں اب تک 30 سے زائد طالبان ہلاک ہو چکے ہیں۔ دونوں گروپوں میں لڑائی کی وجہ حکومت سے ہونیوالے مذاکرات ہیں۔ تحریک طالبان کی سربراہی ملا فضل اللہ کے پاس جانے کے بعد جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے طالبان کے بڑے گروپس منقسم ہو چکے تھے۔ حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کے درمیان جب باقاعدہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو دونوں گروپوں میں اختلافات زیادہ شدت سے سامنے آنا شروع ہوگئے۔ قرین القیاس یہی ہے کہ طالبان کی جانب سے پیش کئے جانیوالے مطالبات پر تحفظات کے ساتھ ساتھ علاقائی تقسیم کے اختلافات بھی سنگین ہو چکے ہیں۔ 

حکیم اللہ محسود گروپ کی سربراہی شہریار محسود اور ولی الرحمن گروپ کی سربراہی خان سید سجنا کر رہے ہیں۔ حکیم اللہ اور ولی الرحمن کی زندگی میں علاقائی حدبندیوں کا مسئلہ گرچہ موجود تھا، تاہم دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اسے ایک حد سے بڑھنے نہیں دیا، لیکن ان دونوں کی موت کے بعد علاقائی حدبندیوں کے علاوہ راستوں کے استعمال اور ان سے حاصل ہونیوالی آمدن کا تنازعہ شدت اختیار کرتا چلا گیا۔ واضح رہے کہ بنوں، لکی یا ٹانک کے راستے ایف آر کے علاقے میں داخل ہونے کے بعد راستے مختلف طالبان گروپوں کے زیر کنٹرول ہیں۔ ان راستوں کے ذریعے ہونیوالی سمگلنگ میں قابض گروپوں کو کثیر آمدن حاصل ہوتی ہے۔ اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں بھی استعمال ہونیوالے راستے کا خراج طالبان گروپ وصول کرتے ہیں۔ ابتدا میں دونوں گروپوں کے درمیان مسلح جھڑپیں صرف وزیرستان تک ہی محدود تھیں مگر اب اس کا دائرہ کار ٹانک تک پھیل چکا ہے۔ واضح رہے کہ ایف آر ٹانک کے علاقے بھی دونوں گروپوں میں تقسیم ہیں۔ گذشتہ روز ٹانک کے ایک ہوٹل میں فائرنگ سے تحریک طالبان کے 5 افراد ہلاک ہو گئے، اس سے قبل 6 اپریل کو شکتوئی میں کار پر فائرنگ سے حکیم اللہ گروپ کے چار افراد ہلاک ہوئے، جبکہ اس سے اگلے ہی دن فائرنگ کے تبادلے میں دونوں گروپوں کے متعدد افراد ہلاک ہوئے۔ 

طالبان کے دیگر گروپوں کی جانب سے اس لڑائی کو رکوانے کی متعدد کوششیں ہو چکی ہیں، تاہم ابھی تک اس کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ قبائلی ذرائع کے مطابق محسود طالبان جو کہ ملا فضل اللہ کی تقرری سے خوش نہیں ہیں، وہ فضل اللہ کی سربراہی میں ہونے والے فیصلوں یا معاہدات کا خود کو پابند نہیں سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی آپس کی یہ لڑائی جس میں بھاری ہتھیاروں کا بھی بے دریغ استعمال جاری ہے، تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ چنانچہ یہ سوال اب زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ جو طالبان آپس کی لڑائی میں ہتھیار ڈالنے پر رضامند نہیں، وہ حکومت سے مذاکرات کے بعد دہشت گردی کرنے سے کیسے باز رہیں گے۔ وہ بھی اس صورت میں جب طالبان کی سربراہی ایسے شخص کے پاس ہے جس کو سربراہ ہی تسلیم نہیں کیا جاتا۔
خبر کا کوڈ : 371617
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش