0
Monday 21 Apr 2014 00:15

فوج اور نواز شریف کے تعلقات نے امریکا کیلئے مشکل پیدا کردی، لاس اینجلس ٹائمز

ٹی ٹی پی کو نشانہ بنانے کے لئے ایک مربوط حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے، واشنگٹن
فوج اور نواز شریف کے تعلقات نے امریکا کیلئے مشکل پیدا کردی، لاس اینجلس ٹائمز
اسلام ٹائمز۔ امریکی اخبار ”لاس اینجلس ٹائمز“ لکھتا ہے کہ کم گو جنرل راحیل شریف کے بیان نے واضح اشارہ دیا کہ فوج اور نواز شریف حکومت میں کشیدگی ہے۔ اسلام آباد میں ایک سینئر سکیورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ فوجی قیادت اس تاثر میں تھی کہ سویلین حکومت اور عدلیہ مشرف کے معاملے میں ریڈ لائن عبور نہیں کرے گی اور فرد جرم عائد ہونے کے بعد انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے گی۔ فوج کے اندر اس دباوٴ میں اضافہ ہو رہا ہے کہ سویلین حکومت کی طرف سے فوج کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ فوج اور نواز شریف کے تعلقات نے امریکا کے سامنے ایک مشکل صورت حال پیدا کر دی ہے، جو چاہتے ہیں کہ نواز شریف حکومت جمہوری اصلاحات کے نفاذ، اقتصادی اور توانائی کے بحران سے نمٹنے اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنائے۔ اوباما انتظامیہ پاک فوج کی منشاء کی حمایت کرتی نظر آئی کہ وہ قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کا تعاقب کرے۔ امریکی حکام کو خدشہ ہے کہ اتحادی افواج کی افغانستان سے واپسی کے بعد تحریک طالبان پاکستان آزادانہ افغانستان میں نقل و حرکت کریں گے۔ پاکستانی فوج نے بھی اشارہ دیا کہ وہ قبائلی علاقے میں کارروائی کریں گے۔ امریکی تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ سویلین حکام کی حمایت کے بغیر فوج ایسی کارروائی نہیں کرے گی۔ واشنگٹن اور دیگر چاہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کو نشانہ بنانے کے لئے ایک مربوط حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے لیکن کوئی بھی آپریشن سویلین حکومت کی مرضی اور کنٹرول کے بغیر شروع نہیں کرنا چاہتے، پاک فوج بھی ایسا نہیں کرے گی، وہ سیاسی تحفظ چاہے گی۔ اخبار کے مطابق کچھ اشارے واضح ہیں کہ نواز شریف کے پاس محدود راستے ہیں خاص کر عسکریت پسندوں سے بات چیت میں، بھارت کے ساتھ تعلقات پر بھی نواز شریف اور فوج میں ہم آہنگی نہیں۔ بھارت کو تجارتی رعایتیں دینے کی فوج نے مخالفت کی ہے۔

ایک سنیئر بھارتی عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ گذشتہ موسم گرما میں انتخابات میں کامیابی کے بعد نواز شریف کے ابتدائی اعلان کے باوجود بھارت کے متعلق پاکستان کا نقطہ نظر بنیادی طور پر ایک ہی رہتا ہے۔ پاکستان کے سویلین حکام اکثر اوقات ترکی میں ایک طاقتور فوج کی طرف سے وزیراعظم رجب طیب اردگان کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کو اتھارٹی حوالے کرنے کی مثال دیتے ہیں لیکن وہاں یہ تبدیلی کا عمل بتدریج ہوا، وہاں اقتصادی اور داخلی امور سے نمٹ کر اعتماد حاصل کیا گیا، پاکستانی حکومت کو ابھی یہ سب کرکے دکھانا ہے۔ پاک فوج کے ایک سابق جرنیل کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت پہلے سال میں یہ سب کرنے کی کوشش میں ہے جب کہ ترکی میں تین مدتی اقتدار کے بعد یہ تبدیلی آئی۔ فوج اس قوم کی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اسے کونے سے لگانے یا بدنام کرنے کی کسی کوشش پر ردعمل کا اظہار کرے گی۔ اخبار لکھتا ہے کہ زیادہ تر پاکستانی تاریخ میں طاقتور فوج منتخب حکام پر اثر انداز ہوئی یا انہیں اختیارات سے محروم کیا گیا، صرف نواز شریف سے اس متعلق پوچھا جا سکتا ہے جنہیں 15برس قبل وزارت عظمیٰ سے معزول کردیا گیا اور اب ان کی نئی سویلین حکومت کو دھکیلا جا رہا ہے۔ جون میں اقتدار میں آنے کے بعد ان کی حکومت نے قید میں عسکریت پسندوں کی گمشدگی کے خلاف فوجی جرنیلوں کے خلاف مقدمہ درج کیا، فوج کی منشاء کے خلاف طالبان عسکریت پسندوں کے ساتھ متنازعہ امن عمل میں مصروف ہیں۔ حال ہی میں نوازشریف نے پرویز مشرف کا تعاقب کیا جس نے انہیں 1999ء میں اقتدار سے بے دخل کیا۔ گذشتہ ماہ سابق فوجی حکمران پر غداری کے الزامات پر فرد جرم عائد کر دی گئی۔ پہلی بار اپنے عہدے کے ایک حاضر سروس یا سابق فوجی اہلکار کو طاقت کے غلط استعمال پر مقدمے کی سماعت کا سامنا ہے۔ حکومت اور عدالتوں نے بیرون ملک ان کے طبی علاج کے لئے مشرف کی اپیل کو ماننے سے انکار کردیا۔ 2008ء سے فوج نے اپنے آپ کو سیاست سے دور رکھا ہے۔ سویلین حکومت کے جارحانہ بیانات پر فوج میں غصے کی لہر پیدا ہوئی۔ گذشتہ دنوں فوجی سربراہ نے ملٹری بیس کے دورے میں اس غصے کی لہر کا اظہار کیا۔ ایک سیاسی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو زیادہ احتیاط سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، سول ملٹری تعلقات کو بہت زیادہ خوشگوار راہ پر رکھنے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 374807
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش