0
Friday 25 Apr 2014 11:48
حماس اور الفتح میں معاہدہ

محمود عباس کو امن کیلئے اسرائیل یا حماس میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا، نتن یاہو کا واویلا

محمود عباس کو امن کیلئے اسرائیل یا حماس میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا، نتن یاہو کا واویلا
اسلام ٹائمز۔ غاصب صیہونی حکومت کے وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے کہا ہے کہ اگر فلسطین کے صدر محمود عباس امن چاہتے ہیں تو ان کی تنظیم الفتح کو حماس سے معاہدہ توڑنا ہوگا۔ نیتن ياہو نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ محمود عباس یا تو اسرائیل کے ساتھ امن قائم رکھ سکتے ہیں یا حماس سے معاہدہ کرسکتے ہیں، دونوں نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں سے تبھی امن مذاکرات کا آغاز کرے گا جب وہ دہشت گردی کا راستہ چھوڑ دیں۔ نیتن ياہو نے کہا کہ جب تک میں اسرائیل کا وزیراعظم ہوں میں کبھی ایسی فلسطینی حکومت سے بات چیت نہیں کروں گا، جسے حماس کے دہشت گردوں کی حمایت ہو، جو ہمیں برباد کرنا چاہتے ہیں۔ صیہونی وزیراعظم کا کہنا تھا محمود عباس نے اسرائیل کے ساتھ امن کے معاملات کرنے کے بجائے حماس کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔ ایک ایسی تنطیم کے ساتھ جو اسرائیل کو تباہ کرنے کے لیے مصروف عمل ہے۔ یہ طے ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ امن کریں یا حماس کے ساتھ جڑ جائیں اور فلسطینی حکام دونوں کو ساتھ لے کر نہیں چل سکتے۔

دیگر ذرائع کے مطابق صیہونی حکومت کے وزیرِاعظم بنجامن نتن یاہو نے فلسطینی صدر محمود عباس کو اس معاہدے پر خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے امن کیلئے یا اسرائیل یا حماس میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ دوسری جانب اسرائیلی وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہ حماس کیساتھ اتحادی معاہدے کا مطلب "فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان مذاکراتی عمل کا خاتمہ ہے۔" نتین یاہو کی تنقید کے جواب میں محمود عباس کے ترجمان نبیل دائنے نے کہا ہے کہ فلسطینی اتحاد ایک اندرونی معاملہ ہے۔ عباس نے فلسطینی عوام کیلئے امن اور اتحاد کا راستہ چنا ہے۔

قبل ازیں غزہ سے تعلق رکھنے والی مذہبی رحجان والی تنظیم حماس اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے محمود عباس کے درمیان اتحاد کا ایک معاہدہ طے پایا ہے اور دونوں فریقین نے اس بات کا اعلان بدھ کو ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔ اس عمل کے بعد پانچ ماہ کے اندر ایک اتحادی حکومت بنے گی اور فلسطینی پارلیمنٹ سے ووٹ لینے کے بعد چھ ماہ میں الیکشن کرائے جائیں گے۔ فلسطینی عوام ایک عرصے سے دونوں سیاسی مخالفین کے درمیان چپقلش کے خاتمے کے خواہاں تھے۔ واضح رہے کہ سال 2006ء میں حماس کو انتخابات میں اکثریت ملی تھی اور اس نے 2007ء میں مغرب کی تائید رکھنے والے محمود عباس کی افواج سے غزہ کی پٹی کا کنٹرول چھین لیا تھا۔ تاہم دونوں فریقین کی جانب سے مفاہمتی معاہدوں پر مزید عمل کی ضرورت ہے، کیونکہ فلسطینی عوام اب بھی ان معاہدوں پر شکوک کا شکار ہے، کیونکہ ماضی میں دونوں جماعتیں ایک دوسرے سے لڑتی رہی ہیں۔

"یہ وہ اچھی خبر ہے جو ہم اپنے لوگوں کو سنانے جا رہے ہیں، اب بٹوارے کا عہد ختم ہوچکا ہے،" حماس سے تعلق رکھنے والے وزیرِاعظم اسماعیل ہانیہ نے فلسطینی رپورٹروں کو بتایا۔ الفتح کے مقابلے میں اور اسرائیلی حکومت کے درمیان شدید عداوت ہے۔ محمود عباس کی جماعت پی ایل او مقبوضہ مغربی کنارے کی فلسطینی اتھارٹی پر کنٹرول رکھتی ہے۔ لیکن خدشہ ہے کہ اس معاہدے کے بعد الفتح اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے امن مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ سال 2007ء میں حماس اور الفتح کے درمیان تنازعے کے بعد دونوں جماعتوں میں یہ باقاعدہ ایک معاہدہ اور رابطہ ہے۔ میٹنگ میں شریک ایک فلسطینی آفیشل نے کہا ہے کہ "ماہرین کی حکومت" قائم کرنے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے، یعنی کابینہ میں سیاستدان کی بجائے ٹیکنوکریٹس شامل ہوں گے۔ دوسری جانب فلسطینی دونوں جماعتوں کے درمیان امن معاہدوں کو بکھرتے ہوئے دیکھ چکے ہیں۔ سال 2011ء میں مصر کی مداخلت سے حکومتی اختیارات میں شرکت کا معاہدہ بھی ناکام ہوا تھا۔
خبر کا کوڈ : 376493
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش