0
Saturday 26 Apr 2014 11:38

خیبر پی کے میں جبراً مذہبی تبدیلوں کے خلاف کارروائی کی ہدایت

خیبر پی کے میں جبراً مذہبی تبدیلوں کے خلاف کارروائی کی ہدایت
اسلام ٹائمز۔ وفاقی وزیرِ برائے مذہبی امور اور بین المذہب ہم آہنگی نے صوبہ خیبر پختونخوا میں اوقاف اور مذہبی امور کے محکمے کو صوبے میں شادیوں کی آڑ میں جبری طور پر مذہب کی تبدیلوں کی روک تھام اور اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے۔اس کے علاوہ صوبائی حکومتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ محکموں مذہبی اقلیتوں کے اراکین کے لیے ملازمت کے کوٹے میں اضافہ کرے۔صوبائی محکمہ برائے مذہبی امور میں ذرائع نے گزستہ روز ڈان کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقنی بنانے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں اور اس سلسلے میں تمام چاروں صوبوں سے کہا گیا ہےکہ وہ ان اقدامات پر عملدرآمد کریں۔یہ بھی امکان ہے کہ وفاقی حکومت جلد ہی ایک میرج بل کو قومی اسمبلی میں پیش کرے گی۔پاکستان مسلم لیگ نون کے صوبائی رکنِ اسمبلی فریڈرک عظیم نے میڈیا کو بتایا کہ جبری طور پر مذہبی تبدیلی کے واقعات صوبہ سندھ اور پنجاب کے مختلف شہروں میں عام ہیں، جبکہ اس طرح کے واقعات صوبہ خیبر پختونخوا میں رپورٹ نہیں ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ متعدد ہندو لڑکیاں شادی کی کی وجہ سے اسلام قبول کرچکی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ 'سندھ کے اندر اس قسم کے واقعات عام ہیں، جہاں پر ہندو لڑکیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے'

ان کا مزید کہنا تھا کہ جبری طور پر مذہبی تبدیلوں کی روک تھام کے لیے وفاقی حکومت کو اقدامات کرنا ہوں گے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے صوبوں سے کہا ہے کہ وہ اقلیتوں کے اراکین کی ملازمتوں اور تعلیمی اداروں کے لیے کوٹے میں اضافہ کرے۔خیال رہے کہ 2009ء میں اقلیتی اراکین کی وفاقی حکومت میں ملازمت کا کوٹہ پانچ فیصد مقرر کیا گیا تھا۔پنجاب، سندھ اور بلوچستان حکومتوں نے اپنے محکموں میں اقلیتی اراکین کے لیے ملازمت کا کوٹہ پانچ فیصد مختص کیا تھا، جبکہ خیبر پختونخوا حکومت نے اس کا کوٹہ تین فیصد مختص کیا تھا۔اقلیتوں کے حوالے سے وزیراعلیٰ کے خصوصی معاون سورہ سنگھ کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں اقلیتوں کے لیے ملازمتوں کا کوٹہ سفر اعشاریہ تین فیصد تھا اور پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت آنے کے بعد اسے تین فیصد کردیا گیا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'اس کو مزید بڑھنے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں'۔متعلقہ حکام کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت نے صوبوں کو یہ بھی سفارش کی ہے کہ وہ عیسائیوں کو اپنے اسکول اور کالجز چلانے کی اجازت دیں۔تاہم، فریڈرک عظیم کا کہنا ہے کہ مذہبی اقلیتوں نے وزیراعظم نواز شریف سے درخواست کی تھی کہ اقلیتوں سمیت عیسائی اور ہندوؤں کو ملک میں اپنی عبادت گاہیں بنانے کی اجازت دی جائے۔ان کا کہنا تھا گزشتہ سالوں میں مذہبی اقلیتوں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے اس لیے انہیں مزید عبادت گاہوں کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 376544
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش