0
Monday 5 May 2014 13:33

القاعدہ کی سرگرمیاں صرف شام اور عراق تک محدود نہیں رہیں گی، مغرب ایک اور نائن الیون کیلئے تیار رہے، اینڈیپنڈنٹ کا انتباہ

القاعدہ کی سرگرمیاں صرف شام اور عراق تک محدود نہیں رہیں گی، مغرب ایک اور نائن الیون کیلئے تیار رہے، اینڈیپنڈنٹ کا انتباہ
اسلام ٹائمز [مانیٹرنگ ڈیسک] – پیٹریک کاک برن کے قلم سے روزنامہ اینڈیپنڈنٹ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شام میں داعش اور النصرہ فرنٹ جیسے القاعدہ سے وابستہ دہشت گرد گروہ زور پکڑتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے یہ خطرہ موجود ہے کہ ان دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیاں صرف شام اور عراق تک محدود نہیں رہیں گی بلکہ مغربی ممالک بھی ان کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ اس رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ مغرب ایک نئے نائن الیون کیلئے تیار ہو جائے۔

کاک برن نے اپنی رپورٹ کے شروع میں لکھا:
"القاعدہ سے وابستہ گروہ جنہوں نے مشرقی شام اور مغربی عراق کے بڑے حصوں پر قبضہ جما رکھا ہے آخرکار ایک دن ان دو ممالک سے باہر نکل کر دنیا کے دوسرے ممالک پر بھی اثرانداز ہوں گے۔ صرف ایک سوال باقی ہے اور وہ یہ کہ ایسا کب ہو گا؟ نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور لندن میں بم دھماکوں جیسے دہشت گردانہ واقعات کے دہرائے جانے کے امکانات موجود ہیں اور عین ممکن ہے کہ اب تک ان دہشت گردانہ حملوں کی روک تھام کیلئے بہت دیر چکی ہو"۔

کاک برن سوشل نیٹ ورکس پر پبلش ہونے والے اس ویڈیو کلیپ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے جس میں شام میں سرگرم غیرملکی تکفیری دہشت گرد عناصر اپنے پاسپورٹس کو آگ لگا کر یہ عہد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ وہ اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں گے، لکھتے ہیں کہ اس ویڈیو کلیپ کے ایک حصے میں ایک کینیڈین تکفیری دہشت گرد انگلش میں یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ:
"میرا یہ پیغام کینیڈا اور تمام امریکہ کی حامی قوتوں کیلئے ہے، ہم آ رہے ہیں اور آخرکار تمہیں نابود کر کے چھوڑیں گے"۔

اسی ویڈیو کلیپ میں ایک اردن کا تکفیری دہشت گرد یہ کہتا ہے:
"میں اردن کے ظالموں سے کہتا ہوں کہ ہم ابومصعب الزرقاوی [اردن کا شہری جس نے 2006ء میں القاعدہ کی بنیاد رکھی تھی اور امریکی ڈرونز کے حملے میں ہلاک ہو گیا تھا] کی نسل سے ہیں اور تم لوگوں کو قتل کرنے کیلئے آ رہے ہیں"۔
اسی طرح اس ویڈیو کلیپ میں مصر، سعودی عرب اور چچنیا کے تکفیری دہشت گرد بھی ایسے ہی ملتے جلتے پیغامات دیتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔

پیٹریک کاک برن اپنی اس رپورٹ میں مزید لکھتے ہیں کہ القاعدہ دہشت گرد نیٹ ورک سے وابستہ النصرہ فرنٹ اور داعش جیسے گروہ کافی زور پکڑتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے شام اور عراق کے ہمسایہ ممالک بھی شدید تشویش کا شکار ہونے لگے ہیں۔ کاک برن کے بقول ترکی بھی ایسے ممالک میں شامل ہے جہاں ان تکفیری دہشت گرد گروہوں کی جانب سے دہشت گردانہ کاروائیوں کا شدید خطرہ پایا جاتا ہے۔ یاد رہے گذشتہ ہفتے بھی انٹرنیشنل بحران گروپ نامی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے "شام کی دلدل میں ترکی کے روز بروز بڑھتے ہوئے نقصانات" کے عنوان سے ایک رپورٹ سامنے آئی جس میں ترکی کے ایک اہم ذریعے کے بقول کہا گیا ہے کہ القاعدہ سے وابستہ مسلح دہشت گرد گروہ مستقبل قریب میں ترکی کیلئے وبال جان بن جائیں گے چونکہ ہم ایک سیکولر ملک ہونے کے ناطے ان گروہوں کے افکار و نظریات کو قبول نہیں کر سکتے۔ اگر یہ تکفیری دہشت گرد گروہ شام میں اپنے اہداف و مقاصد حاصل نہ کر پائے تو کیا ہو گا؟ وہ اپنی شکست کا ذمہ دار ترکی کو ٹھہرائیں گے اور اس پر دھاوا بول دیں گے۔

کاک برن لکھتے ہیں: "ہمیں ہر گز یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ شام اور عراق میں داخل ہونے والے ہزاروں تکفیری جنگجو 510 مایل لمبی ترکی کی سرحد عبور کر کے وہاں گئے ہیں"۔ اسی طرح ترکی کے ایک اعلی سطحی انٹیلی جنس اہلکار نے کہا ہے: "جس وقت ترکی نے انہیں گرفتار کرنا شروع کیا ہم جانتے تھے کہ ایسا ہو گا، وہ پورے ترکی میں بم دھماکے کریں گے"۔

ڈیلی اینڈیپنڈنٹ میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کے دوسرے حصے میں آیا ہے کہ:
"اردن میں بھی شام میں سرگرم مسلح باغیوں کی حمایت پر مبنی پالیسی اختیار کئے جانے پر اظہار تشویش کیا جا رہا ہے۔ امریکہ، سعودی عرب اور اردن کی انٹیلی جنس ایجنسیز اب اس کوشش میں مصروف ہیں کہ شام کے شہر درعا میں جہاں سے صدر بشار اسد کے خلاف مسلح بغاوت کا آغاز ہوا تھا، ایک نئے مزاحمتی گروپ کو سامنے لائیں جس کا نام "جنوبی فرنٹ" رکھا گیا ہے اور اس میں حکومت مخالف معتدل اور سیکولر عناصر کو شامل کیا گیا ہے۔ جنوبی فرنٹ میں شامل یہ عناصر صدر بشار اسد کے بھی مخالف ہیں اور تکفیری شدت پسند گروہوں کے بھی مخالف ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ جھوٹ اور فریب کے سوا کچھ نہیں کیونکہ جنوبی فرنٹ میں شامل دہشت گردوں کی اکثریت کا تعلق النصرہ فرنٹ سے ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ امان میں واقع آپریشنز کنٹرول روم میں بیٹھے امریکہ، سعودی عرب اور اردن کی انٹیلی جنس ایجنسیز کے افسروں کے زیادہ فرمانبردار اور مطیع ہیں"۔

کاک برن مزید لکھتے ہیں:
"لیکن اب اردنی حکام اپنی سرزمین سے شام پر حملہ کرنے کیلئے جنوبی فرنٹ کی تشکیل سے ناامید ہو چکے ہیں۔ وہ اب 2011ء اور 2012ء کی مانند اس بات سے زیادہ مطمئن نہیں رہے کہ صدر بشار اسد کو شکست دی جا سکتی ہے۔ وہ شام میں دو ہزار کے لگ بھگ اردنی تکفیری دہشت گردوں کی موجودگی اور ان کی ممکنہ وطن واپسی کے بارے میں شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ 16 اپریل کو اردن کی ایئرفورس نے ایک انتہائی پراسرار آپریشن انجام دیا جس میں شام سے اردن کی جانب آنے والے ایک فوجی کاروان کو نشانہ بنایا گیا۔ شام حکومت نے اس حملے کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح اردنی حکام نے حلب پر حملے کے وقت شام کے مسلح باغیوں کی جانب سے درعا پر حملے کو بھی روک دیا تھا"۔

پیٹریک کاک برن نے حال ہی میں امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والی دہشت گردی کے بارے میں سالانہ رپورٹ کی جانب بھی اشارہ کیا اور لکھا کہ اگرچہ اس رپورٹ میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ القاعدہ کی سنٹرل کمانڈ کمزور ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود اس رپورٹ میں اس بات پر تاکید کی گئی ہے کہ شام میں بحران کے آغاز سے القاعدہ سے وابستہ دہشت گرد گروہوں نے طاقت پکڑ لی ہے۔
خبر کا کوڈ : 379138
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش