0
Wednesday 7 May 2014 16:03

کراچی آپریشن کیساتھ ساتھ بھتہ خوری بھی کھلے عام جاری، سندھ حکومت خاموش اور عوام پریشان

کراچی آپریشن کیساتھ ساتھ بھتہ خوری بھی کھلے عام جاری، سندھ حکومت خاموش اور عوام پریشان
رپورٹ: زیڈ ایچ جعفری

گذشتہ سال نواز حکومت نے کراچی میں بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کیلئے گرینڈ آپریشن کا فیصلہ کیا تھا، اس وقت ملکی انٹیلی جنس اداروں نے بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ میں سرگرم گروپوں کی رپورٹ بھی پیش کی تھی، آج جبکہ کراچی کو دہشت گرد اور جرائم پیشہ عناصر سے پاک کرنے کیلئے ستمبر 2013ء میں شروع ہونے والے آپریشن کو 8 ماہ سے زائد عرصہ بیت چکا ہے لیکن بھتہ خور آج بھی آزاد ہیں، سندھ حکومت خاموش ہے اور عوام شدید کرب و پریشانی کا شکار ہیں۔ بھتہ خوروں نے ڈاکٹر، وکیل، تاجر، صنعت کار، پروفیسر غرض زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں چھوڑا جسے بھتے کی پرچیاں نہ دی گئی ہوں، بھتہ خوروں نے کئی افراد کو بھتہ نہ دینے پر موت کے گھاٹ بھی اتار دیا، پولیس و رینجرز اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود بھتہ خوری پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔ مملکت خداداد پاکستان کے معاشی حب اور میٹرو پولیٹن شہر کراچی کو جرائم پیشہ افراد سے پاک کرنے کی غرض سے 5 ستمبر 2013ء کو آپریشن کا آغاز کیا گیا، اس دوران کراچی پولیس کی کمانڈ بھی تبدیل کی گئی جبکہ نئے ڈی آئی جیز بھی تعینات کئے گئے۔ کراچی آپریشن کے دوران پولیس اور رینجرز نے 10 ہزار سے زائد ملزمان کی گرفتاری کے دعوے کئے جو کہ انتہائی کھوکھلے ثابت ہوئے۔

بھتہ خوری کی وارداتوں پر قابو پانے کیلئے اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ میں ایک انسداد بھتہ سیل بھی قائم کیا گیا ہے تاہم وہ اس کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکا جس کی امید کی جا رہی تھی۔ دوسری جانب اسی دوران بھتہ خور بھی انتہائی سرگرم رہے جبکہ پولیس و رینجرز ان تک پہنچنے میں ناکام رہی، آپریشن شروع ہوئے 8 ماہ سے زائد کا عرصہ بیت گیا اور اس دوران بھتہ خوری کے 780 کیسز انتظامیہ کا منہ چڑانے کیلئے کافی ہیں۔ کراچی آپریشن کے پہلے ماہ یعنی ستمبر 2013ء میں 128، اکتوبر میں 92، نومبر میں 89، دسمبر میں 70، جنوری 2014ء میں 98، فروری میں 87، مارچ میں 117، اپریل میں 97 جبکہ ماہ مئی میں اب تک 11 کیسز سٹیزن پولیس لائزن کمیٹی (سی پی ایل سی) میں رجسٹرڈ کئے جا چکے ہیں۔ بھتہ خوروں کی جانب سے تاجروں، ڈاکٹروں، صنعتکاروں، ہوٹلوں، اسکولوں، دکانداروں، بلڈرز اور صاحب حیثیت شہریوں کو بھتے کی پرچیوں کے ساتھ آتشی اسلحہ کی گولیاں بھی بھیجی گئیں اور پرچیوں میں قتل کی دھمکی دے کر لاکھوں روپے بھتہ طلب کیا گیا۔ بھتہ خوروں نے پرچیوں میں بچوں کے اسکول آنے جانے کا وقت تحریر کرکے شہریوں کو زیادہ ہراساں کیا تاکہ بھتہ جلد مل سکے۔

حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ملزمان اس دوران نہ صرف کروڑوں روپے بھتہ وصول کر چکے ہیں جبکہ 780 کیسز کے علاوہ بڑی تعداد ایسی بھی ہے جس میں تاجر حضرات پولیس حکام کے علم میں لائے بغیر ہی جان کے خوف سے بھتہ خوروں کو کروڑوں روپے ادا کر چکے ہیں۔ کراچی آپریشن کے دوران ہی جہاں ایک جانب پولیس و رینجرز ”دہشت گردوں“ کو پکڑنے میں مصروف رہی تو دوسری جانب بھتہ خور شہریوں کو نہ صرف بھتے کی پرچیاں دیتے رہے بلکہ انھیں خوف زدہ کرنے کی غرض سے گھروں، دفاتر اور گاڑیوں کے قریب بم بھی نصب کرتے رہے۔ بہادرآباد، پیرآباد، سائٹ ایریا اور نارتھ ناظم آباد سمیت دیگر علاقوں میں حال ہی میں ایسے کئی واقعات رونما ہوئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بھتہ نہ دینے کی ”پاداش“ میں بھتہ خوروں نے متعدد افراد کو جینے کے حق سے بھی محروم کر دیا۔ ہزاروں ملزمان کی گرفتاری کے دعوے کرنے والے پولیس و رینجرز حکام بھتہ خوری کی لعنت پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رپورٹس کے مطابق شہر میں جہاں متحدہ قومی موومنٹ، لیاری گینگ وار عزیر جان گروپ، گینگ وار بابا لاڈلہ گروپ، اے این پی، سنی تحریک، پیپلز پارٹی سمیت مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، تحریک طالبان سمیت مختلف کالعدم دہشت گرد تنظیمیں سالانہ اربوں روپے بھتہ لے رہی ہیں۔ کراچی اس وقت بھتہ خوروں کی جنت بن چکا ہے، چھوٹی بڑی ہر مارکیٹ بھتہ خوری کی لپیٹ میں ہے۔
 
ایک رپورٹ کے مطابق یومیہ بنیاد پر تاجروں سے ایک کروڑ روپے روزانہ، 30 کروڑ روپے ماہانہ اور سالانہ 4 ارب روپے سے زائد فکس و جبری بھتہ وصول کیا جا رہا ہے۔ صرف اولڈ سٹی ایریا کی تقریبا سو مرکزی مارکیٹوں سے ماہانہ کئی کروڑ روپے فکس بھتہ وصول کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ شہر کے پوش علاقوں کلفٹن، ڈیفنس، گزری، زمزمہ، طارق روڈ، بہادر آباد سمیت اردو بازار، الیکٹرونکس مارکیٹ، صدر، گلشن اقبال ، لیاقت آباد سمیت دیگر علاقوں کی مارکیٹوں اور صنعتی علاقوں کے تاجروں اور صنعتکاروں سے بھتہ وصولی کا سلسلہ جاری ہے۔ کراچی میں حکومتی بے حسی کے باعث جرائم پیشہ عناصر کے حوصلے بھی بلند ہو چکے ہیں جس کا اندزہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بھتہ خوروں کی جانب سے دیدہ دلیری کے ساتھ آن لائن بینکنگ کے ذریعے بھی بھتہ وصول کیا جا رہا ہے۔ کراچی میں بھتہ خوری کا تعلق بین الاقوامی مافیا سے بتایا جاتا ہے، جس کے مطابق شہر میں بھتہ خوری میں غیر ملکی بھی ملوث ہیں جو غیر ملکی سموں سے کالز کرکے بھتہ طلب کرتے ہیں۔

کراچی میں بھتہ خوری میں پولیس افسران کی بھی بہت بڑی تعداد کے ملوث ہونے کا میڈیا میں انکشاف ہو چکا ہے جس پر سندھ کے وزیر اطلاعات و بلدیات شرجیل انعام میمن نے بھتہ لینے والے پولیس افسران کے ناموں کی فہرست پر تحقیقات کرانے کا حکم دیا تھا۔ میڈیا میں کراچی پولیس کے بھتہ نیٹ ورک سے متعلق انکشاف پر شرجیل انعام میمن نے مزید کہا تھا کہ جس کے خلاف الزام ثابت ہوا ضرور کارروائی ہوگی، حکومت نے کبھی نہیں کہا معاشرے میں کرپشن نہیں، پولیس میں اچھے لوگوں کے ساتھ برے بھی ہیں، انہوں نے اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مانتے ہیں کہ پولیس میں 100 فیصد اہلکار اچھے نہیں، بھتہ لینے والے اہلکاروں کے ناموں کی فہرست میں خود آکر دیکھوں گا،میڈیا ثبوت پیش کرے، کرپشن میں ملوث ایک ایک اہلکار کو ہٹا دیں گے مگر تاحال شرجیل میمن کے دعوؤں پر عملدرآمد شروع نہیں کیا گیا ہے۔

شہر میں جاری بھتہ خوری کے حوالے سے شہریوں کا کہنا ہے کہ کراچی آپریشن اور ہزاروں کی تعداد میں ملزمان کی گرفتاری کے باوجود بھتہ خوری عروج پر ہے، شہریوں کی جان و مال غیر محفوظ ہے اور عوام کی مشکلات حل کرنے اور ملک کو درپیش مسائل سے نجات دلانے کا اعلان کرنے والے حکمرانوں کا اعلان صرف اعلان تک ہی محدود ہے، عملی نہیں ہو سکا۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی، قتل و غارت گری، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ جیسی لعنتوں نے شہر کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے جبکہ حکمران خاموش ہیں، حکمرانوں کی یہ خاموشی عوام دشمنی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ شہریوں کا کہنا تھا کہ کراچی پولیس تو سیاست کا شکار ہو ہی چکی تھی مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ رینجرز جو کہ ہماری پاک فوج کا حصہ ہے اس کی بھی طویل عرصے سے کراچی میں موجودگی کا ہمیں کوئی خاص فائدہ نظر نہیں آتا۔ شہریوں نے مطالبہ کیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھتہ خوری پر قابو پانے کیلئے فی الفور ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کریں۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ سے لیکر بھتہ خوری تک ہر جرم میں سیاسی جماعتوں کے ملوث ہونے پر شہریوں نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر سیاسی جماعتیں ہی ہر جرم کے پیچھے ہیں اور جرائم پیشہ عناصر کو سیاسی جماعتوں کی سرپرستی حاصل ہے تو اب کیا ہم پاک فوج کو دعوت دیں کہ وہ آکر کراچی کا کنٹرول سنبھال لے۔
خبر کا کوڈ : 380096
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش