0
Friday 9 May 2014 17:04

امریکی بالادستی کا خاتمہ ہو چکا ہے، نیو ورلڈ آرڈر آخری سانسیں لے رہا ہے، مجلہ فارن پالیسی

امریکی بالادستی کا خاتمہ ہو چکا ہے، نیو ورلڈ آرڈر آخری سانسیں لے رہا ہے، مجلہ فارن پالیسی
اسلام ٹائمز- امریکہ کے ایک معروف مجلے فارن پالیسی نے اپنے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ امریکی صدر براک اوباما روس پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ دنیا کو انیسویں صدی کے حالات کی جانب دھکیل رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خود امریکی حکام ماضی میں پھنس کر رہ چکے ہیں۔ مجلے فارن پالیسی کے مطابق امریکہ اب تک اس زعم میں مبتلا ہے کہ دنیا پر حکمفرما قوانین اب تک وہی ہیں جو "امریکی بالادستی" پر مشتمل انتہائی قلیل مدت کے دوران حکمفرما تھے۔ یہ قلیل دورانیہ 1991ء میں سابق سوویت یونین کے زوال سے شروع ہو کر گذشتہ عشرے تک جاری رہا۔

فارن پالیسی لکھتا ہے کہ 1990ء میں اس بات پر یقین کرنا ممکن تھا کہ بین الاقوامی سطح پر دو قطبی نظام کی جگہ ایک نیا نظام سامنے آ رہا ہے۔ اس نئے نظام کو جرج بش سینیئر نے "نیو ورلڈ آرڈر" کا نام دیا تھا۔ اس نیو ورلڈ آرڈر کے بنیادی عناصر بین الاقوامی عدالتوں کے ذریعے عالمی سطح پر پیدا ہونے والے اختلافات کا پرامن حل، عالمی انسانی حقوق، بین الاقوامی عدالتی انصاف اور سرمایہ کاری اور تجارت گنے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ یہ جدید لبرل نظام بین الاقوامی سطح پر قانون کی حاکمیت پر زور دیتا تھا جس کے مطابق بین الاقوامی قوانین اور قانونی اداروں کو بین الاقوامی نظم میں انتہائی بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ مجلہ فارن پالیسی اس بارے میں لکھتا ہے:
"یہ نیا نظام سابق سوویت یونین کے زوال کے بعد محض اتفاقی طور پر معرض وجود میں نہیں آیا تھا لیکن آج یہ عالمی نظام اپنے زوال کی جانب بڑھ رہا ہے۔ یہ زوال امریکہ کی طاقت میں روز بروز کمی اور اس کے نتیجے میں امریکہ کی جانب سے دوسروں پر اپنی اقدار کو ٹھونسنے اور اپنے مفادات کو تحمیل کرنے میں ناتوانی کا نتیجہ ہے۔ آج وہ سپرپاور نابود ہو چکی ہے لہذا اس کے بنائے ہوئے قوانین بھی ختم ہو رہے ہیں"۔

اس مقالے کے مطابق "بین الاقوامی عدالت انصاف" کو عالمی لبرل نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل تھی۔ یہ نظریہ کہ دنیا کے ممالک اپنے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو جنگ کی بجائے بین الاقوامی قانونی اداروں سے رجوع کرتے ہوئے حل کریں، انیسویں صدی کی جانب پلٹتا ہے۔ اسی صدی میں امریکہ اور برطانیہ اپنے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو بین الاقوامی اداروں کی مدد سے حل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے بعد ان جنگوں میں فتح حاصل کرنے والے ممالک نے بعض ایسی عدالتوں کو تشکیل دیا جن کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کے ممالک اپنے درمیان موجود اختلافات کو حل کرنے کیلئے ان عدالتوں سے رجوع کریں۔ ان میں سے سب سے زیادہ اہم "بین الاقوامی عدالت انصاف" تھی۔ یہ عدالت 1945ء میں تشکیل پائی۔ 1990ء کے عشرے میں دنیا کے تقریبا ایک سو ممالک نے مل کر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی جس کا بنیادی مقصد تجارتی اختلافات اور موانع کو برطرف کرنا تھا۔ اسی دوران سمندروں سے متعلق عالمی قوانین بھی بنائے گئے اور اسی عشرے میں انہیں لاگو بھی کر دیا گیا۔

مجلہ فارن پالیسی اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بین الاقوامی اداروں کے ذریعے اختلافات اور تنازعات کو حل کرنے پر مبنی جاہ طلبانہ منصوبہ بری طرح ناکامی کا شکار ہو چکا ہے، لکھتا ہے کہ یہ بین الاقوامی ادارے جب بھی عالمی طاقتوں کے مفادات سے روبرو ہوئے ہیں اپنی ذمہ داریاں صحیح طور پر بجا لانے سے کتراتے رہے ہیں۔ اس وقت بین الاقوامی سطح پر پائے جانے والے اختلافات کی دو بڑی وجوہات چین اور روس کے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اختلافات ہیں۔ ان دونوں میں سے کوئی بھی ملک اپنے اختلافات کو عالمی عدالت انصاف کے ذریعے حل کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتا۔ اس کی وجہ بھی واضح ہے اور وہ یہ کہ بین الاقوامی عدالتیں کنزرویٹو ہیں اور موجودہ سیاسی حقائق کو جیسے ہیں ایسے ہی باقی رکھنے کی جانب جھکاو رکھتی ہیں۔ جبکہ دوسری طرف چین اور روس چاہتے ہیں کہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر مطلوبہ نتائج حاصل کریں۔ اسی طرح امریکہ اور دوسرے ممالک اس قدر طاقتور نہیں کہ روس اور چین کو بین الاقوامی قوانین کی پیروی کرنے پر مجبور کر سکیں۔

نیو ورلڈ آرڈر کا دوسرا بنیادی عنصر انسانی حقوق [البتہ مغربی نقطہ نظر سے] تھا۔ نیو ورلڈ آرڈر کے بنیادی اہداف میں سے ایک دنیا کے ہر حصے پر لبرل ڈیموکریسی کو حکمفرما کرنا تھا لیکن ہم آج دیکھ رہے ہیں کہ عالمی سطح پر انسانی حقوق کا نظریہ بری طرح شکست سے دوچار ہو چکا ہے۔ فارن پالیسی نے اس بارے میں یہ دعوی کیا ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک انسانی حقوق سے متعلق اپنے وظائف پر کاربند نہیں ہیں۔

فارن پالیسی میں شائع ہونے والے اس مقالے میں کہا گیا ہے کہ نیو ورلڈ آرڈر کا تیسرا بنیادی رکن بین الاقوامی انصاف تھا۔ اس بنیادی رکن کے تحت یہ طے پایا تھا کہ دنیا بھر میں ایسے افراد خاص طور پر مختلف ممالک کے حکام جو کسی بھی طرح کے جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے ہوں یا انہوں نے کسی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہو، ان کے خلاف ایک بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ نیورن برگ اور ٹوکیو کی عدالتیں ان اداروں میں شامل ہیں جو دوسری عالمی جنگ کے بعد اس نظریئے پر بہت زیادہ تاکید کرتی تھیں۔ لیکن ان سب کے باوجود یہی بین الاقوامی عدالتیں کئی مشکلات کا شکار ہو گئیں۔ بعض افراد پر مقدمہ چلائے جانے کے بعد یہ حقیقت عیاں ہو گئی کہ ان عدالتوں کی حیثیت صرف تشریفاتی حد تک ہی ہے۔ صرف افریقہ کے بعض کمزور ممالک ہی ان عدالتوں سے ڈرتے ہوں گے۔ ان عدالتوں میں آج تک کسی امریکی، روسی یا چینی شہری پر مقدمہ نہیں چلایا جا سکا۔

نیو ورلڈ آرڈر کا چوتھا بنیادی رکن آزاد تجارت اور سرمایہ کاری تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد مغربی ممالک کے درمیان تجارت اور ٹیکس کا عالمی معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے کی رو سے سب کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ وہ ٹیکسز کو کم از کم کر دیں۔ اس کے بعد 1990ء میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی گئی۔ سب کی کوشش تھی کہ دنیا بھر میں انجام پانے والی سرمایہ کاری قانون کے دائرے میں رہ کر انجام پائے اور امیر ممالک غریب ممالک میں سرمایہ کاری انجام دیں۔

مجلہ فارن پالیسی نیو ورلڈ آرڈر کے ان چار بنیادی ارکان کو بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے کہ اگر دنیا کے ممالک سابق سوویت یونین کے زوال کے بعد خود کو کچھ حد تک ان بین الاقوامی قوانین کا پابند بھی کرتے تھے تو وہ امریکہ اور کچھ حد تک یورپ کی طاقت کی وجہ سے تھا۔ کیونکہ جو ممالک ان بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے تھے ان کو دی جانے والی مالی امداد اور تکنیکی تعاون کاٹ دیا جاتا تھا۔ اگر 1990ء میں یہ حقیقت سب پر واضح نہیں تھی تو کم از کم آج سب پر عیاں ہو چکی ہے کیونکہ جیسے جیسے امریکہ کی طاقت اور بالادستی میں کمی آ رہی ہے دنیا کے ممالک کی جانب سے مذکورہ بالا چار بنیادی ارکان کی پابندی میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 380800
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش