0
Saturday 10 May 2014 10:26

ڈاکٹر فائی نے سان فرانسسکو میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے چھ نکاتی ایجنڈا پیش کر دیا

ڈاکٹر فائی نے سان فرانسسکو میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے چھ نکاتی ایجنڈا پیش کر دیا
اسلام ٹائمز۔ عالمی تنظیم برائے بیداری کشمیر کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر غلام نبی فائی نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے چھ نکاتی ایجنڈا پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیریوں کی 87 فیصد سے زیادہ آبادی آزادی چاہتی ہے اس لیے کشمیریوں کے مطالبہ آزادی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ کیلی فورنیا میں امریکن مسلم الائنس اور پاکستانی امریکن ڈیموکریٹک فورم کے زیراہتمام گذشتہ روز، کشمیر، امریکی پالیسی سازوں کے لیے یاددھانی کے عنوان سے سیمینار منعقد ہوا۔ سیمینار سے ڈاکٹر غلام نبی فائی کے علاوہ سابق امریکی سینیٹر مائیک گریول، اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ کے صدر نعیم بیگ، ڈاکٹر ہٹمن بازین اور ڈاکٹر آغا سعید نے بھی خطاب کیا۔ 

ڈاکٹر غلام نبی فائی نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری عوام پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔ ان مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے سے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان باہمی احترام کے دروازے کھلیں گے۔ مفاہمت اور حالات معمول پر لانے کا ماحول پیدا ہو گا چنانچہ ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اقدامات کیے جائیں۔ اس سلسلے میں چھ نکات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ پہلے مرحلے میں اس حقیقت کا ادراک کرنا ہو گا کہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے اسے سیاسی ذرائع کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے فوجی ذرائع سے نہیں۔ 

چھ نکاتی ایجنڈے کے دوسرے نکتے کے بارے میں ڈاکٹر فائی نے بتایا کہ جب مذاکراتی عمل شروع ہو تو فریقین کے درمیان ہر طرف سے جنگ بندی کا ہونا ضروری ہے ایسا ممکن نہیں کہ جب مذاکراتی پارٹیاں ایک دوسرے کو مار رہی ہوں تو مذاکرات بھی جاری رہیں۔ چھ نکاتی ایجنڈے کے تیسرے نکتے کے بارے میں ڈاکٹر فائی نے بتایا کہ مذاکراتی عمل پاکستان بھارت اور کشمیری عوام کی حقیقی قیادت کے درمیان سہ فریقی سطح پر ہونے چاہئیں۔ مذاکرات میں کسی فریق کی طرف سے پیشگی شرائط عائد نہ کی جائیں جبکہ مذاکرات کے لئے عدم تشدد پر عزم ظاہر کیا جائے۔ 

انھوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں مذاکرات چار مختلف سطحوں پر بیک وقت شروع کیے جانے چاہئیں۔ کشمیر کی سیاسی اور مزاحمتی قیادت آزاد کشمیر، گلگت و بلتستان کی قیادت اور کشمیر کے اقلیتی گروپوں کی قیادت کے درمیان انٹرا کشمیر بات چیت کا آغاز ہونا چاہیے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان براہ راست بات چیت ہونی چاہیے۔ بھارت، پاکستان اور کشمیری قیادت کے درمیان بات چیت ہونی چاہیے۔ 

ڈاکٹر فائی نے بات چیت کے چوتھے نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر بھارت و پاکستان، کشمیر، چین اور امریکا کے درمیان بھی مذاکرات ہونے چاہئیں۔ کشمیری رہنما نے بتایا کہ مذاکراتی عمل کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے تیسری قوت سہولت کار کا کردار ادا کرے۔ سہولت کار کا کردار ادا کرنے کے لیے عالمی سطح کی شخصیت جنوبی افریقہ کے بشپ ڈسمنڈ ٹوٹو، اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان، ناروے کے سابق وزیراعظم میگن بینڈ ویک، آئرلینڈ کی سابق صدر میری رابنسن بھی ہو سکتی ہیں۔ 

کشمیری رہنما نے اپنے خطاب میں مزیدکہا کہ ماضی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مختلف سطحوں پر بات چیت کے کئی دور ہوئے 2013ء میں امریکی اثرورسوخ سے بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان نیویارک میں بات چیت ہوئی دونوں رہنماؤں نے بات چیت جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ دونوں راہنمائوں نے اس حقیقت کا ادراک کیا کہ پاکستان اور بھارت کو کشمیر سمیت دیرینہ مسائل کو حل کی طرف قدم بڑھانا ہو گا۔ انہوں نے بتایا کہ کشمیری عوام مذاکراتی عمل کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ مذاکرات کا عمل ہمسایہ ممالک کے درمیان باہمی احترام اور سمجھ بوجھ کے دروازے کھولے گا اور حالات معمول پرلانے میں مددگار ثابت ہو گا۔ 

ڈاکٹر فائی نے خبردار کیا کہ مذاکراتی عمل کا ٹائم فریم ضروری ہے ٹائم فریم کے بغیر مذاکراتی عمل نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتے۔ مذاکراتی عمل میں فریقین کو اپنے ذہنوں میں تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ ڈاکٹر غلام نبی فائی نے سیمینار کے شرکاء کو بتایا کہ کشمیری عوام کی غالب اکثریت آزادی چاہتی ہے نومبر 2004ء میں بھارتی جریدے آؤٹ لک نے ایک سروے جاری کیا اس سروے کے مطابق 78 فیصد کشمیری آزادی چاہتے ہیں۔ 12 اگست 2008ء کو ہندوستان ٹائمز، این ڈی ٹی وی کی طرف سے ایک سروے کروایا گیا اس سروے کے مطابق کشمیر کے 87 فیصد لوگوں نے کشمیر کے لیے آزادی کا مطالبہ کیا۔27 مئی 2010ء کو لندن کے چیتم ہائوس کے تحت ہونے والے سروے بی بی سی نے جاری کیا اس سروے کے مطابق وادی کے 90 سے 95 فیصد لوگ آزادی چاہتے ہیں۔ 

انہوں نے بتایا کہ امریکا بھی مسئلہ کشمیر کے حل میں دلچسپی رکھتا ہے امریکی صدر اوبامہ نے 30 اکتوبر 2008ء کو کہا تھا کہ امریکا پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تفہیم کی سہولت کی کوشش کرتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 381030
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش