0
Tuesday 13 May 2014 14:53

کراچی، نادرا میں غیر قانونی اور نامکمل دستاویزات پر شناختی کارڈ کی تیاری جاری

کراچی، نادرا میں غیر قانونی اور نامکمل دستاویزات پر شناختی کارڈ کی تیاری جاری
نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی اور دیگر عوامل کے باعث کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔ یہاں بھی دیگر اداروں کی طرح ایجنٹ سرگرم ہوگئے ہیں جو تارکین وطن کے شناختی کارڈ باآسانی بنوا دیتے ہیں، نادرا کا جو عملہ غیر قانونی دستاویزات پر شناختی کارڈ بنانے سے انکار کرتا ہے اسے جسمانی طور پر ہراساں اور دھمکایا جاتا ہے، نادرا ویجلینس ٹیم کی شناختی کارڈ دفاتر کی نگرانی کے باعث ایجنٹ میز کرسی لگا کر دفاتر کے باہر نہیں بیٹھتے تاہم خفیہ طور پر نادرا رجسٹریشن سینٹرز کے اردگرد منڈلاتے رہتے ہیں، یہ گماشتے سیاسی اور کالعدم تنظیموں کی سپورٹ پر تمام سینٹرز پر سرگرم عمل ہیں تاہم لیاری، اورنگی کورنگی، ملیر، بلدیہ اور عوامی مرکز میں قائم سینٹرز پر ان کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ لیاری سینٹر میں گینگ وار کی سرپرستی میں یہ گماشتے ان غیر قانونی دستاویزات پر بھی شناختی کارڈ بنوا لیتے ہیں جن کو دیگر سینٹرز بنانے سے معذوری کا اظہار کر دیتے ہیں، سابق چیئرمین طارق ملک کے دور میں ہزاروں افراد سیاسی بنیادوں پر بھرتی کئے گئے جن کی نااہلیت سے اب یہ ادارہ بھی زوال پذیر ہو رہا ہے۔
 
اطلاعات کے مطابق پاکستان میں شہریوں کے کوائف اکٹھا کرنے اور شناختی کارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کیلئے 2002ء میں نادرا کا قیام عمل میں لایا گیا، قبل ازیں شناختی کارڈ مینوئل طریقے سے بنایا جاتا تھا اور اس کا دفتری اندراج بھی رجسٹروں میں کیا جاتا تھا جس سے باآسانی جعل سازی کرلی جاتی تھی، ماضی میں ایجنٹ میز کرسی ڈال کر شناختی کارڈ دفاتر کے باہر بیٹھتے تھے اور قانونی و غیرقانونی دستاویزات پر متعلقہ افسران کی ملی بھگت سے شناختی کارڈ بنوایا کرتے تھے۔ ایک شخص کے مختلف ناموں پر درجنوں شناختی کارڈ بنوا دیئے جاتے تھے جس سے وہ جائیداد، بیرون ملک سفر اور کاروباری معاملات میں ہیرا پھیری کر لیا کرتے تھے تاہم پکڑے جانے کی صورت میں نہ صرف ملک کی بدنامی کا سبب بنتے بلکہ پاکستانی شناختی کارڈ کی اہمیت بھی ختم ہو جاتی، اس دور میں پاکستانی شہریوں کو بھی شناختی کارڈ بنوانے کیلئے ان گماشتوں سے رجوع کرنا پڑتا تھا کیونکہ متعلقہ افسران بلاجواز اعتراضات لگا کر ان کے دستاویزات مسترد کر دیتے یا تاخیری حربے استعمال کرتے، شناختی کارڈ مینوئل سسٹم دور میں لاکھوں تارکین وطن کے بھی شناختی کارڈ بنوائے گئے، وفاقی حکومت نے ان تمام خرابیوں کو ختم کرنے کیلئے 14سال قبل نادرا کو قائم کیا تاکہ ملکی شناختی علامت محض کاغذ کا ایک ٹکڑا نہ رہے بلکہ فخر کا نشان بنے۔
 
آغاز میں نادرا کی کارکردگی مثالی تھی۔ پورے سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ کرکے ایک کارنامہ انجام دیا گیا، ایک آدمی کا درجنوں شناختی کارڈ بنانے کا سلسلہ رک گیا، ایجنٹ سسٹم کو ختم کیا گیا ہزاروں دہرے شناختی کارڈ منسوخ کئے گئے اور تارکین وطن کے جعلی شناختی کارڈز کی سختی سے جانچ پڑتال شروع کی گئی، بتدریج اس ادارے کی کارکردگی بھی متاثر ہوئی۔ ذرائع کے مطابق سابق چیئرمین طارق ملک کے دور میں 8 تا 9 ہزار سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہوئی جس سے نادرا کا مثالی کام گہنا گیا تاہم ابھی بھی عام شہری بلارکاوٹ باآسانی اپنے شناختی کارڈ بنوا لیتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ مسائل وہاں جنم لے رہے ہیں جہاں سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والا عملہ تعینات ہے، سیاسی جماعتوں سے وابستہ نچلا عملہ رشوت خوری کیلئے عام شہریوں کو تنگ کرتا ہے اور مکمل دستاویزات کی موجودگی کے باوجود انہیں تارکین وطن قرار دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اعلیٰ حکام تک اگر شکایات پہنچ جائیں تو مسائل حل ہو جاتے ہیں بصورت دیگر شہری مہینوں دفاتر کے چکر لگاتے رہتے ہیں اور ملکی شہریت منوانے میں پاپڑ بیلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
 
اصل مسائل لیاری، بلدیہ، کورنگی، اورنگی، ملیر اور دیگر چند سینٹرز میں ہو رہے ہیں جو حساس علاقوں میں قائم ہیں، ان علاقوں میں مسلح سیاسی و کالعدم تنظیموں کا اثر و رسوخ ریاستی انتظامیہ سے زیادہ ہے جس کے باعث ان علاقوں میں ایجنٹ پانچ سال سے سرگرم ہیں جو 20 سے 25 ہزار میں تارکین وطن کے شناختی کارڈ نادرا کے عملے کی ملی بھگت سے بنوا لیتے ہیں۔ نادرا کا جو ایماندار افسر جعلی شناختی کارڈ بنانے سے انکار کرتا ہے اسے مارا پیٹا جاتا ہے، ہوائی فائرنگ کرکے ہراساں کیا جاتا ہے، ان مجرمانہ سرگرمیوں کی وجہ سے نادرا کے کیماڑی، صفورا، لی مارکیٹ اور بلدیہ ٹاؤن پٹنی محلہ کے سینٹرز بند ہو چکے ہیں تاہم دیگر سینٹرز بالخصوص لیاری، اورنگی، کورنگی اور ملیر وغیرہ میں ابھی بھی جعلی شناختی کارڈ کا اجراء جاری ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ نادرا کے اعلیٰ حکام نے یہ نیٹ ورک توڑنے کیلئے حکومت سندھ سے مدد مانگی تھی اور درخواست کی تھی کہ حساس سینٹرز پر پولیس تعینات کر دی جائے تاکہ ایجنٹ مافیا کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے تاہم صوبائی حکومت نے کوئی اقدام نہ اٹھایا۔
خبر کا کوڈ : 381987
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش