0
Thursday 15 May 2014 02:24
مسلمانوں کو لڑانا اسرائیل کا ایجنڈا ہے

سعودی اور ایرانی پول بناکر عالمی سطح پر امت مسلمہ کو تقسیم کیا جارہا ہے، ملی یکجہتی کونسل

دیگر مذاہب کے ماننے والوں پر حملے کی مذمت کرتے ہیں
سعودی اور ایرانی پول بناکر عالمی سطح پر امت مسلمہ کو تقسیم کیا جارہا ہے، ملی یکجہتی کونسل
رپورٹ: ایم آر عابدی

ملی یکجہتی کونسل وحدتِ امت اور اختلافی مسائل کے حل کیلئے کوشاں ہے، تمام مسالک و مکاتب سے وابستہ علماء و فقہا کا ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا پاکستان اور امت مسلمہ کیلئے خیر و برکت کا باعث ہے، سعودی اور ایرانی پول بنا کر عالمی سطح پر امت مسلمہ کو تقسیم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے، رمضان سے قبل قومی سطح پر دینی ایجنڈا اور ترجیحات متعین کرنے کیلئے کانفرنس کریں گے، حکومت پاکستان مظلوم امت مسلمہ کی داد رسی کیلئے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرے، سفارتی وفد تشکیل دے کر دنیا بھر میں رائے عامہ کو ہموار کیا جائے، اسلامی نظریاتی کونسل پر پابندی کا مطالبہ خود آئین اور دستور کے خلاف ہے، سود کے معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلوں پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے، مدارس کے خلاف مہم بند کی جائے، غیر مسلم اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کرام نے ادارہ نور حق میں ملی یکجہتی کونسل کے تحت منعقدہ اتحاد امت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

کانفرنس سے صدر ملی یکجہتی کونسل ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر، جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ، ڈپٹی جنرل سیکرٹری ثاقب اکبر، صدر صوبہ سندھ اسداللہ بھٹو، جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن، مجلس وحدت مسلمین کے علامہ صادق رضا نقوی، شیعہ وفاق المدارس کے علامہ باقر عباس زیدی، نائب ناظم جمعیت اتحاد العلماء پاکستان علامہ ضمیر اختر منصوری، جے یو پی سندھ کے جنرل سیکرٹری علامہ عقیل انجم، قاضی احمد نورانی، جے یو آئی کے مولانا عبدالکریم عابد، اسلم غوری، جمعیت اہل حدیث کے قاری محمد اصغر، عبدالحق ہاشمی، سابق امیر جماعت اسلامی کراچی محمد حسین محنتی، جے یو آئی کے فضل عثمانی، تحریک فیضان اولیاء کے عثمان علی نظامی، تنظیم اسلامی کے محمد نسیم الدین، ضیاء الرحمٰن فاروقی نے خطاب کیا۔ کانفرنس میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام، سیاسی جماعتوں کے قائدین اور مفکرین کی کثیر تعداد نے شرکت کی، ڈپٹی سیکرٹری ملی یکجہتی کونسل ثاقب اکبر نے ملی یکجہتی کونسل کی کارکردگی رپورٹ بھی پیش کی۔ مولانا عبدالوحید نے امت مسلمہ کے مجموعی مسائل پر قرارداد پیش کی، جسے شرکاء نے ہاتھ اٹھا کر منظور کیا۔ کانفرنس میں جماعت اسلامی کے رہنما برجیس احمد نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔

صاحبزادہ ابوالخیر نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں سیکولر ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوششیں بڑھ گئی ہیں، سندھ اسمبلی میں اسلامی نظریاتی کونسل کے خلاف قرارداد اسی سلسلے کی کڑی ہے، اسکی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، یہودی لابی کے ایجنڈے پر عمل کرکے فحاشی و عریانیت کو فروغ دیا جا رہا ہے، ناموس رسالتؐ قانون کے خاتمے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ مدارس اسلام کا قلعہ ہیں، اس لیے ان کے خلاف آپریشن کی تیاریاں بھی کی جا رہی ہیں، سود کو ختم کرنے کے بجائے یوتھ لون پروگرام کے ذریعے سود کو گھر گھر پہنچایا جا رہا ہے۔

لیاقت بلوچ نے کہا کہ ہم ہر شکل میں دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں، کراچی منی پاکستان اور معاشی حب ہے، یہاں کی بدامنی سے پورا ملک متاثر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک فوج حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے پسند ناپسند کو چھوڑ کر قانون کو عملی طور پر نافذ نہیں کر دیتے، تب تک امن کا قیام ناممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ امن مذاکرات اور آئین پاکستان کے حوالے سے بھانت بھانت کی بولیاں ملک و قوم کیلئے نقصان دہ ہونگی، آئین کو اگر اس کی روح کے مطابق نافذ کر دیا جائے تو بیشتر مسائل خود حل ہوجائیں گے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل نہ کرنا المیہ ہے، تحفظ پاکستان آرڈیننس کالا قانون اور انڈین ٹاڈا قانون کا چربہ ہے، اس سے خفیہ اداروں کو قتل کا لائسنس مل جائیگا، وزیراعظم اپنے موقف پر نظرثانی کریں اور دیگر جماعتوں کے موقف پر غور فرمائیں۔ اس بل کے ذریعے منبر و محراب اور دینی مدارس کو بھی ٹارگٹ کیا جائیگا۔ ہم ہر قیمت پر مدارس کا تحفظ کریں گے، ہم میڈیا پر قدغن کے قائل نہیں لیکن ایسی میڈیا پالیسی کی ضرورت ہے جو پاکستان کی نظریاتی اور اسلامی اخلاقی قدروں کا پاس کرے۔ انہوں نے کہا کہ تمام دینی جماعتوں کا فرض ہے کہ دل آزاری پر مبنی لٹریچر، تقاریر اور نعرے جن سے فساد پھیلتا ہے، اس کے ازالے کے لیے مشترکہ کوشش کریں۔

اسد اللہ بھٹو نے کہا کہ روئے زمین پر امت مسلمہ لہو لہان ہے، مصر میں جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اسلام پسندوں کو تختہ مشق بنا دیا گیا ہے، فلسطین، کشمیر، افغانستان، برما سمیت ہر جگہ مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، ان حالات میں حکومتِ پاکستان کو خاموشی زیب نہیں دیتی، حکومت سفارتی وفد تشکیل دے جو دنیا بھر میں مسلمانوں کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرے، حدود آرڈیننس کی بحالی کی جدوجہد کی جائے، اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل کیا جائے، پاکستان میں 18 سال سے کم عمر کی شادی پر پابندی بیرونی اشاروں پر لگائی گئی، ہم دیگر مذاہب کے ماننے والوں پر حملے کی مذمت کرتے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ملی یکجہتی کونسل عوام کی تمناؤں کا مرکز ہے، امت کے اتحاد کے ایک نقطے پر متفق کرنے کے لیے کونسل اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ مزمل ہاشمی نے کہا کہ جب تک مسلمان اتحاد کا مظاہرہ نہیں کرتے ہمارے حالات بہتر نہیں ہوسکتے۔

علامہ عقیل انجم نے کہا کہ مسالک کو لڑانے کے لیے باہر سے سرمایہ آرہا ہے، بعض ممالک اپنے ایجنٹوں کے ذریعے فنڈنگ کر رہے ہیں۔ قاری ضمیر اختر منصوری نے کہا کہ اتحاد امت وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مولانا عبد الکریم عابد نے کہا کہ مسلمانوں کے دشمن ایک پلیٹ فارم پر ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ امت کی قوت کو یکجا نہ ہونے دیا جائے، انتشار کے ماحول میں دینی جماعتوں کے ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں، منبر و محراب کو اتحاد کے لیے استعمال کرنا چاہیئے۔ نسیم الدین نے کہا کہ وقت کی ضرورت وہ نظام ہے جو نبی اکرم ؐ نے نافذ کیا۔ قاری اصغر نے کہا کہ اخلاص کے ساتھ اگر مشترکہ جدوجہد کریں تو ہم پر اللہ کی رحمت نازل ہوگی۔ علامہ صادق رضا تقوی نے کہا کہ مسالک کے درمیان مشترکات کی وضاحت اور تبلیغ کی جائے، ہر مکتبہ فکر کے مقدسات کا احترام کیا جائے، فتویٰ سازی کی صنعتوں کو کنٹرول کیا جائے، اختلافی معاملات میں صرف علمی شخصیات کی رائے کو اہمیت دی جائے، مشترکہ کمیٹی بنا کر دینی مدارس کے دورے کئے جائیں، جمعہ اور اجتماعات میں شرکت کی جائے۔

اسلم غوری نے کہا کہ قاضی حسین احمد مرحوم کا مشن تھا کہ تمام مکاتب فکر کے درمیان موجود اختلافات کو ختم کرکے یکجہتی کی فضا قائم کی جائے، ہمیں اسی مشن کو لے کر آگے بڑھنا ہوگا۔ علامہ باقر عباس زیدی نے کہا کہ مسلمانوں کو لڑانا اسرائیل کا ایجنڈا ہے، مصر کی منتخب قیادت کو سزائیں دی گئیں۔ محمد حسین محنتی نے کہا کہ فرقوں کے تصور سے نکل کر دین کے پلیٹ فارم میں آنا ہوگا، تب ہی امت کے مسائل حل ہوں گے، اگر ہم فرقوں میں بٹے رہے تو  اسی طرح مسائل کا شکار رہیں گے۔ فضل عثمانی نے کہا کہ علماء کو قول و فعل کے تضاد کو ختم کرکے ایثار و قربانی کا عملی نمونہ بننا ہوگا۔ عثمان علی نظامی نے کہا کہ دنیا بھر میں مسلمانوں، شعائر اسلام پر حملے کئے جا رہے ہیں، مگر مسلم حکمران خاموش ہیں۔ ضیاء الرحمن فاروقی نے کہا کہ امت مسلمہ باہمی انتشار کے سبب اغیار کے منصوبے میں خود ہی رنگ بھر رہی ہے۔ قاضی احمد نورانی نے کہا کہ پاکستان میں ایک بار پھر لادینیت کو غالب کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں، ایسے میں صرف حالات کا مرثیہ پڑھنے کے بجائے عملی طور پر ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 382593
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش