0
Saturday 17 May 2014 21:16

بلوچستان کی بجلی پنجاب کیلئے!

بلوچستان کی بجلی پنجاب کیلئے!

رپورٹ: این ایچ حیدری

گذشتہ دس دنوں سے بلوچستان میں بجلی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ بارش اور باد و باران سے مچھ کے قریب چار ٹاور گر گئے۔ ٹاور گرنے سے پورے صوبے میں قیامت آ گئی۔ آناً فاناً 18 اضلاع کو بجلی کی سپلائی معطل کر دی گئی اور صوبائی دارالحکومت میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 12 سے 14 گھنٹے کر دیا گیا۔ اخبارات کے دفاتر میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بے رحمی کے ساتھ دس گھنٹے بڑھا دیا گیا۔ صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک بجلی غائب ہے۔ پورے کا پورا نظام زندگی ٹھپ ہوگیا۔ شام پانچ بجے کے بعد بھی ایک آدھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے۔ سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ رات کے وقت غیر مستحکم بجلی کی سپلائی کمپیوٹر اور دوسری مشینری کو اکثر و بیشتر نقصانات پہنچاتی ہے۔ کروڑوں روپے کے نقصانات کے بعد کیسکو ان نقصانات کا ذمہ دار نہیں۔ یہ تمام بوجھ غریب الوطن شہری برداشت کرتے ہیں۔ سب سے بڑی شکایت یہ کہ کیسکو کی انتظامیہ اور انجینئرز نااہل ہیں۔ ان سے منسلک ادارے بھی اسی حد تک نااہلی کے ذمہ دار ہیں۔ ان اہلکاروں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ ان کو صرف سکیورٹی کی کلیئرنس کے لیے پانچ مکمل دن چاہیئیں۔ یہ ہمارا مشاہدہ رہا ہے کہ پنجاب کو جانے والی گیس پائپ لائن اڑا دی جاتی ہے تو اس کی سکیورٹی کلیئرنس ملنے میں صرف چند گھنٹے لگتے ہیں اور اسی دن کام شروع ہوتا ہے اور پنجاب کو گیس کی سپلائی بحال کر دی جاتی ہے تاکہ پنجاب کی معیشت کو نقصانات کم سے کم ہوں مگر بلوچستان میں سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت سے سکیورٹی کلیئرنس دینے میں چار سے پانچ دن لگائے جاتے ہیں۔

شاید اس کا مقصد بلوچستان کے لوگوں، بشمول امراء اور اشرافیہ کو اس کی سخت سزا دی جائے۔ کم سے کم پورے صوبے میں بجلی کا نظام دس دنوں تک جان بوجھ کر معطل رکھا جائے۔ معیشت کو کتنا نقصان پہنچتا ہے، کیسکو کو اس سے سروکار نہیں بلکہ کیسکو کی اعلٰی ترین انتظامیہ اس بات میں خوش ہوتی ہے کہ دس دن کے لائن نقصانات Line Losses کم ہوئے۔ کمپنی کی منافع بخش حیثیت میں ایک خوش گوار تبدیلی آئی یا کیسکو کے نقصانات کم ہوئے۔ گمان یہ ہے کہ کیسکو کی انتظامیہ جان بوجھ کر بجلی کی فراہمی کو معطل رکھتی ہے۔ اس کو اس شدید گرمی میں انسانی المیہ کی پرواہ نہیں ہے۔ کیسکو کی نااہلی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ بجلی کے بل کے نادہندگان میں ٹیوب ویل کے صارفین ہیں۔ وہ 81 ارب کے مقروض ہیں۔ مجال ہے کہ کیسکو ان کی بجلی بند کرے۔ یہ گروہ اتنا طاقتور ہے کہ حکومت کو تہہ و بالا کرسکتا ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ مکران کیلئے ایران سے تقریباً ستر میگا واٹ بجلی خریدی اور فراہم کی جا رہی ہے۔ ایران میں لوڈشیڈنگ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ایران 124000 میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے اور قریب کے آٹھ ممالک کو بجلی فروخت کرتا ہے۔ مکران کے لئے 70 میگا واٹ بجلی کوئی بات نہیں۔ کیسکو کے افسران مکران میں بھی لوڈشیڈنگ کرتے ہیں اور کئی گھنٹے بجلی بند کر دی جاتی ہے۔ مقصد لوگوں کو اذیت پہنچانا ہے۔ کیونکہ ایران کی طرف سے ایک منٹ کے لئے بھی بجلی بند نہیں کی جاتی، پھر مکران میں لوڈشیڈنگ کیوں۔؟

دوسری بات یہ ہے کہ مکران کے بجلی کا نظام قومی گرڈ سے منسلک نہیں ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ مکران سے بجلی بچا کر کراچی یا لاہور کو سپلائی کی جاتی۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ مقصد صرف عوام الناس کو اذیت پہنچانا ہے۔ مجموعی طور پر وزیراعلٰی کو کیسکو کی نااہلی کی حمایت نہیں کرنی چاہیئے کہ سینکڑوں ارب روپے کی مالیت کی واپڈا، چار بجلی کے ٹاور بحال نہیں کرسکتی۔ ویرانے میں جہاں پر دور دور تک آبادی کا نام و نشان نہیں۔ اس علاقے کی سکیورٹی کلیئرنس کیلئے ان کو پانچ دن چاہیئیں۔ دریں اثناء گذشتہ روز بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بھی صوبے میں بجلی کے بحران کے خلاف صوبائی وزیر بلدیات غلام مصطفی ترین نے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ بجلی کی بحالی تک اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا۔ غلام مصطفیٰ ترین نے کہا کہ پورے بلوچستان میں بجلی کا بحران ہے۔ لوگوں کو پینے کا پانی تک میسر نہیں۔ ایسی صورتحال میں ہمارا اسمبلی میں بیٹھنا مشکل ہو گیا ہے۔ رکن اسمبلی عبدالسلام بلوچ نے کہا کہ مکران ڈویژن میں گذشتہ 3 روز سے بجلی بند ہے۔ ایران سے آنے والی ٹرانسمیشن لائن کے کھمبے گرنے سے بجلی کا مسئلہ پیدا ہوا۔ رکن اسمبلی عبدالکریم نوشیروانی نے الزام عائد کیا کہ کھمبے واپڈا حکام خود گراتے ہیں۔ الزام دہشت گردوں پر لگاتے ہیں۔ وزیراعلٰی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے ایوان کو یقین دلایا کہ عبدالکریم نوشیروانی ثبوت فراہم کریں تو ذمہ دار کیسکو حکام کو گرفتار کر لیں گے۔ اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر پشتونخوا میپ کے رکن اسمبلی و صوبائی وزیر بلدیات سردار مصطفی خان ترین نے کہا کہ گذشتہ کئی دنوں سے صوبے میں بجلی کی سپلائی منقطع ہے۔

جس کی وجہ سے عوام اور زمیندار در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اگر احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تو میں اسمبلی کی بجائے ان کے ساتھ شریک ہونگا۔ قائد ایوان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ صوبے میں بجلی کا بحران ہے مگر ہماری حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ انہوں نے کہا صوبے کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ وفاقی حکومت نے 28 ارب روپے ریلیز کئے ہیں۔ وزیر اطلاعات عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ جو شخص بل نہیں دے رہا ان کی لائن کاٹ دی جائے۔ باقی لوگوں کو سزا نہ دی جائے۔ واپڈا حکام کی مسلسل وعدہ خلافی اور رویہ قابل مذمت ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے بجلی کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ ایکنک میں بہت سارے منصوبوں کی منظوری دی گئی ہے لیکن واپڈا حکام کام نہیں کر رہے۔

خبر کا کوڈ : 383504
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش