0
Tuesday 28 Sep 2010 14:47

این آر او عملدرآمد کیس، عدالت عظمیٰ کی حکومت کو 13 اکتوبر تک مہلت

این آر او عملدرآمد کیس، عدالت عظمیٰ کی حکومت کو 13 اکتوبر تک مہلت
 اسلام ٹائمز- ڈیلی جسارت کے مطابق این آر او عملدرآمد کیس میں سپریم کورٹ سے مقابلے پر آمادہ نظر آتی حکومت نے پلٹا کھا لیا۔ عدالت عظمیٰ میں وزیراعظم کی جانب سے منظور کی گئی سمری پیش کرنے کے بجائے مقدمے کی سماعت میں التوا کی درخواست دائر کر دی جس پر سپریم کورٹ نے حکومت کو 13 اکتوبر تک مہلت دیتے ہوئے این آر او فیصلے پر عملدرآمد کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات اور سوئس مقدمات جیسے بیرون ملک دیگر مقدمات کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔ نیب نے این آر او سے فائدہ اٹھانے والے موجودہ 36 حکومتی عہدے داروں کی فہرست سپریم کورٹ میں پیش کر دی۔
تفصیلات کے مطابق پیر کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے این آر او عمل درآمد کیس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل مولوی انوارالحق نے وفاق کی جانب سے این آر او عملدرآمد کیس کی سماعت ملتوی کرنے کیلئے درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی ملکی، بین الاقوامی اور سیلاب کے بعد امدادی کارروائیوں میں مصروفیات کی وجہ سے سمری کا جائزہ نہیں لے سکے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم نے سوئس مقدمات پر سمری منظور کر لی ہے اور انکا یہ بھی کہنا ہے کہ ابھی کچھ قانونی پہلووں کا جائزہ لینا باقی ہے۔ 
جسٹس طارق پرویز نے پوچھا کہ جب سمری منظور ہو گئی تو پھر کس چیز کا جائزہ لینا ہے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ وفاق کی طرف سے دوٹوک موقف پیش کریں کہ این آر او سے متعلق عدالتی فیصلے پر من و عن عملدرآمد ہو گا کہ نہیں۔ این آر او سے متعلق عدالتی فیصلے کو 9 ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن ابھی تک سوئیس حکام کو مقدمات کی دوبارہ سماعت کیلئے خط نہیں لکھا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ سمری پر حکم کیا دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کا کتنا پیسہ باہر گیا اور اسکی واپسی کیلئے کیا اقدامات کئے گئے؟، سوئس اکاونٹس میں جو رقم منجمد تھی وہ بحال ہونے پر کہاں گئی؟
 اٹارنی جنرل نے بتایا کہ رقم کے بہت سے دعویدار آئے تھے جبکہ سوئٹزرلینڈ میں صدر زرداری کے خلاف ٹرائل نہیں انکوائری ہوئی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سوئس کیسز کے معاملے میں ملک قیوم بھی برابر کے شریک ہیں، انکے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔ نیب پراسیکیوٹر جنرل عامر راجا نے عدالت کو بتایا کہ نیب نے این آر او سے فائدہ اٹھانے والے 240 افراد کے بارے میں انکوائری کی، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ہی بتا سکتے ہیں کہ کتنے افراد اب بھی حکومتی عہدوں پر ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت روزانہ اصرار کرتی ہے کہ این آر او فیصلے پر اسکی روح کے مطابق عمل کیا جائے جبکہ این آر او فیصلے کے تحت فوجداری مقدمات کی بحالی کے حوالے سے بھی عدالت کو غلط فہرست دی گئی۔ نیب پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ کچھ مقدمات کی بحالی کیلئے درخواستیں زیر سماعت ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صرف سوئس کیسز ہی نہیں، بیرون ملک اور بھی مقدمات تھے جن میں حکومت پاکستان فریق تھی، یہ معلوم کریں کہ ایسے کتنے مقدمات تھے۔ چیف جسٹس نے نیب پراسیکیوٹر جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ قائم مقام چیئرمین نیب نے جو اقدامات کئے انکی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے نیب کی جانب سے این آر او زدہ 36 افراد کی فہرست پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر این آر او زدہ تمام افراد کی فہرست پیش کرنے کا حکم دیا۔ این آر او عمل درآمد کیس کے التوا کی حکومتی درخواست پر مقدمے کی سماعت 13 اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی جبکہ این آر او نظر ثانی کیس کی سماعت بھی اسی روز کی جائے گی۔



خبر کا کوڈ : 38431
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش