0
Monday 26 May 2014 21:56

پاراچنار میں طالبان سرگرمیوں پر عوامی ردعمل

پاراچنار میں طالبان سرگرمیوں پر عوامی ردعمل
 رپورٹ: تنویر زیدی

پاکستان کی مغربی سرحدوں پر جگہ جگہ، خصوصاً فاٹا اور بالاخص کرم ایجنسی میں طالبان کی سرگرمیوں میں کافی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، وزیرستان، خیبر ایجنسی، مہمند ایجنسی کے علاوہ کرم ایجنسی سے گزرنے والی شاہراہوں پر طالبان کے کانوائے پر کانوائے افغانستان کی طرف رواں دواں نظر آرہے ہیں۔ کرم ایجنسی میں طوری اور بنگش قبائل اس علاقے میں طالبان کی سرگرمیوں پر اپنے تحفظات رکھتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ 2007ء سے لیکر 2011ء تک کے طویل عرصے کے لئے طالبان نے اس علاقے کو خاک و خون میں غلطاں کئے رکھا۔ انہوں نے کئی سال تک اس علاقے کا محاصرہ کیے رکھا۔ اس علاقے کے عوام کی پاکستان کی کسی علاقے تک رسائی کو شجر ممنوعہ قرار دیا، اور افسوس کی بات یہ کہ اس دوران حکومت نے بھی طالبان کو نہ فقط ان مذموم کارروائیوں سے روکے نہیں رکھا بلکہ طوری قبیلے کے خلاف انکی ہر ممکن مدد بھی کی۔ 

چند سال قبل جب کرم ایجنسی میں صلح ہوگئی، تب حکومت ہی کی دلچسپی اس بات میں تھی کہ کرم ایجنسی کے مقامی طوری بنگش قبائل طالبان کو افغانستان میں دراندازی کی اجازت دیں، لیکن انہوں نے حکومت کی یہ درخواست قبول نہیں کی، اور کہا کہ ایک تو یہ کہ وہ اپنے علاقے کو کسی کے خلاف اور وہ بھی محض انسان دشمن سرگرمیوں کے لئے، ہرگز اجازت نہیں دے سکتے، باقی یہ چند سال قبل، انکا تنازعہ علاقے میں آباد مقامی قبائل سے تھا، جبکہ نان لوکل طالبان جنکا اس علاقے سے کوئی واسطہ نہیں، نے نہ فقط جنگوں میں انکے مخالف قبائل کا ساتھ دیا بلکہ از خود بھی جنگیں مسلط کیں، چنانچہ طالبان کو اس علاقے سے گزرنے کی اجازت قطعاً نہیں دی جاسکتی۔

اس حوالے سے متعدد بااثر اور باخبر افراد سے رابطہ کیا گیا، ان کا کہنا تھا کہ ہمارے بعض مقامی بااثر افراد اور رہنما اس بات کے حق میں تھے کہ حکومت کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا جائے، اور طالبان کو راستہ فراہم کیا جائے، بلکہ انہوں نے اسلام آباد میں اس حوالے سے طالبان اور انکے سرکاری سرپرستوں سے بات کرکے ضمانت بھی فراہم کی تھی، تاہم انہیں اس حوالے سے مقامی قبائل کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ چنانچہ ڈھائی سال قبل جب راستہ کھل گیا تو کچھ ہی عرصہ بعد طالبان نے کرم ایجنسی سے ہوکر افغانستان کی طرف جانا شروع کیا، اپنے سفر کے دوران انہوں نے اسلحے کی باقاعدہ نمائش بھی کی، جس پر مختلف علاقوں کے لوگوں نے پہلے حکومت سے احتجاج کیا، جب حکومت کے کانوں پر جونک نہ رینگی تو متعدد مقامات پر علاقے کے عوام سڑکوں پر آگئے اور طالبان کے خلاف از خود قدم اٹھانے کی دھمکیاں دیں، چنانچہ بعد میں حکومت نے حالات کی نزاکت کا اندازہ لگا کر طالبان پر یا تو مکمل پابندی لگا دی یا کم از کم اسلحے کی نمائش نہ کرنے اور عام قبائلی روپ دھار کر آرام سے گزر جانے کا پابند کر دیا۔ 

آج کل ایک بار پھر طالبان نے فاٹا کے دیگر علاقوں کی طرح کرم ایجنسی میں بھی اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کر دیا ہے، پاراچنار سے افغان سرحد کی جانب جانے والی سڑک پر سے روزانہ جب طالبان گزر رہے ہوتے ہیں تو ہتھیاروں کی کھلم کھلا نمائش بھی کرتے رہتے ہیں۔ راقم الحروف نے اس حوالے سے ٹل پاراچنار روڈ پر بگن سے مالی کلی تک اور مالی کلی سے پاک افغان سرحدی گاؤں خرلاچی تک جانے والی سڑک پر آباد افراد خصوصاً روڈ سائڈ پر آباد دکانداروں اور عوام الناس سے مسلسل تین دن تک ایک سروے کیا ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ 

لوئر کرم کے علاقے بگن میں ایک دکاندار سے سگریٹ خریدتے وقت جب مسلح طالبان کی یکے بعد دیگرے چند گاڑیاں گزر گئیں، تو راقم نے اس حوالے سے دکاندار سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں اور کیا اس علاقے میں حکومت کی عملداری نہیں جبکہ یہ غیر سرکاری لوگ مسلح پھر رہے ہیں، تو پہلے انہوں نے پوچھا کہ آپ کا تعلق کہاں سے ہے، بندہ نے جواب میں پشاور کا کہا، تو دکاندار نے نہایت رازداری کے ساتھ کہا کہ بھئی یہ سب کچھ حکومتی پالیسی ہے، انہوں نے کہا کہ کوئی طالبان نہیں، داڑھیاں رکھی ہیں، سب فوجی ہیں اور افغانستان کی طرف جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دو گھنٹے قبل ایک طالب نما مسلح شخص اترا اور مجھ سے مختلف چیزیں خریدیں، مگر وہ باتیں اردو میں کر رہا تھا۔ اسکے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ یہ کوئی افغان یا پٹھان نہیں بلکہ پاکستانی فوجی ہیں۔

علی زئی میں کچھ لوگ روڈ سائڈ پر بیٹھے تھے، ان سے پوچھا کہ کیا آج کل تم لوگوں کی نظریں کبھی طالبان پر پڑی ہیں۔ تو انہوں نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ ان دنوں نہیں، بلکہ ابھی ایک ڈیڑھ گھٹنہ قبل بھی طالبان سے بھری متعدد گاڑیاں ہماری نظروں کے سامنے یہاں سے گزری ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ طالبان کو اس علاقے خصوصاً طوری اقوام کے علاقوں سے گزرنے میں کوئی دقت تو پیش نہیں آرہی۔ انہوں نے کہا کہ طالبان نہیں بلکہ سب سرکاری لوگ ہیں، صرف حلیہ بدلا ہوا ہے، یا اگر طالبان ہیں بھی، تو انہیں حکومت کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ 

صدہ میں ایک پھل فروش سے پھل خریدتے وقت باتوں باتوں میں جب ہم نے سوال کیا تو وہ بہت محتاط سا ہوگیا، اس نے ہم سے علاقے کا پوچھا، ہم نے جواب میں پشاور کا کہا، تو اس نے کہا کہ بھئی ان باتوں سے صرف نظر کریں۔ جب ہم نے اصرار کیا تو اس نے کہا کہ دیکھیں یہ طالبان ہیں، نہ کوئی دوسرا گروہ، سب کچھ آئی ایس آئی ہے، ہمارے اس علاقے کو، چھ سات سال تک جھنجھوڑ کے رکھا ان لوگوں نے، انکے مقاصد افغانستان میں تھے، وہاں گھسنے کے لئے فوج نے کرم ایجنسی میں سنی شیعہ کا ڈرامہ رچایا، اپنے افراد کو افغانستان میں داخل کرایا اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے بعد علاقے میں امن قائم کیا۔

صدہ ہی میں ایک اور دکاندار، جس کا تعلق افغانستان کے علاقے پکتیا سے تھا، سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے بھی نام نہ بتانے کی شرط پر نہایت رازداری کی بات کرتے ہوئے کہا کہ طالبان ہوں یا کوئی اور خدا سب کا بیڑہ غرق کرے، ان لوگوں نے پاکستان کو سلامت چھوڑا اور نہ ہی افغانستان کو، بس دعائیں کرو، دعاؤں کے علاوہ ہماری بس میں کچھ بھی نہیں۔ پوچھا یہ لوگ ہیں کون؟ کہا کون ہیں، ناکوں سے اسلحہ سمیت گزرتے ہیں، یہ کون ہوسکتے ہیں، آپ خود ہی اندازہ لگائیں، میں نے اصرار کیا، تو کہنے لگ کہ یہ سب کچھ حکومتی اشارے پر ہو رہا ہے۔ آگے چل کر مالی کلی میں ایک سرکاری اہلکار سے پوچھا کہ مقامی افراد کو تو تم لوگ چاقو سمیت بھی جانے نہیں دیتے، جبکہ یہ غیر مقامی اور وہ بھی ان علاقائی عوام کے دشمن لوگ، مشین گنوں اور راکٹوں سمیت آپ کے ناکوں کو کیسے بغیر روک ٹوک کے کراس کر جاتے ہیں، تو اس نے کہا کہ ہم تو گوش بفرمان ہیں، اوپر سے ایسا ہی آرڈر ہے کہ ان لوگوں کو نہ چھڑیں، بلکہ بغیر کسی مزاحمت کے آگے جانے دیا جائے۔ چنانچہ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ 

اسی طرح دوسرے روز بھی ہم نے راستے میں دیگر مقامات پر بھی مختلف افراد سے استفسار کیا تو انکے جوابات بھی مذکورہ بالا افراد سے ملتے جلتے ہی تھے۔ راستے میں ایک منی مارکیٹ کے ایک دکاندار سے پوچھا، کہ یہ لوگ کون ہیں، تو اس نے بتایا کہ ابھی یہاں ایک گاڑی رکی، ایک داڑھی والا اترا، جس نے کلاشنکوف کی میگزینوں سے بھرا بیلٹ جسے پشتو میں بندھ کہتے ہیںِ، باندھا تھا، ہم سے کچھ چیزیں خرید کر واپس گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا، اس نے مزید بتایا کہ وہ شخص اپنے ساتھ کلاشنکوف تو نہیں لایا، تاہم گاڑی میں ہر چیز نمایاں تھی، راکٹ لانچر، ہیوی اور لائٹ مشین گنیں بھی باقاعدہ دکھائی دے رہی تھیں۔ اسی منی مارکیٹ میں ایک اور بندے نے کہا کہ ان لوگوں سے میری تلخ کلامی بھی ہوئی۔ میں نے انہیں کہا کہ اس علاقے سے گزرنا ہے تو آنکھیں نیچے کرکے گزرا کرو، تم ہمارے دشمن ہو، اسلحے سمیت یہاں رکنا، ہم کسی صورت میں برداشت نہیں کرسکتے۔ 

اسی طرح کے واقعات کی فہرست کافی طویل ہے، اگلے روز یعنی بدھ 21 مئی کو ہم بوڑکی اور خرلاچی بارڈر کی وزٹ کرنے گئے۔ وہاں ایک عجیب صورتحال دیکھنے کو ملی، کیا دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کی طرف سے طالبان سے بھری سینکڑوں گاڑیاں افغانستان کی جانب جا رہی ہیں اور بارڈر کے اُس پار یعنی افغانستان کی جانب صرف چند سو میٹر کے فاصلے پر طالبان کی ایک ریلی افغان سرحدی ٹاؤن شہرِ نو کی جانب بڑھ رہی ہے، وہاں موجود ایف سی کے ایک اہلکار سے پوچھا، تو جواب میں ان کا کہنا تھا، اکوڑہ خٹک مدرسہ سے فارغ طلباء آئے ہیں، انہوں نے کورس کی تکمیل کی ہے اور اب جشن منا رہے ہیں۔ بندہ نے پوچھا کہ اچھا، اس طرف سے جو مسلح طالبان جا رہے ہیںِ یہ کون ہیں۔ غصے میں کہا کہ جا کر انہی سے پوچھو۔
 
اسکے بعد بندہ اپنے دو ساتھیوں سمیت خرلاچی میں موجود دربار سید لالا گل بابا کی جانب روانہ ہوا، جو کہ مقامی کاظمی سادات کے جد امجد ہیں، وہاں اس صورت حال کے متعلق لوگوں کی رائے پوچھی۔ تو ایک صاحب نے کہا کہ کل 20 مئی کو یہاں ہمارے علاقے سے سینکڑوں طالبان نے افغان آبادی اور سرکاری تنصیبات پر حملہ کیا۔ افغان حکومت نے بھی جوابی کارروائی کی، معاملہ طول پکڑ گیا تو ہم نے مسلح ہوکر نمٹنے کی ٹھانی، کیونکہ خدشہ تھا کہ ان سے نمبٹتے ہوئے افغان حکومت کہیں ہماری آبادی کو نشانہ نہ بنائے۔ انہوں نے کہا کہ تب جاکر کہیں معاملہ رفع دفع ہوا۔ 

ان ایام میں کرم ایجنسی میں ایک طرف اہل تشیع اندرونی اختلافات کا شکار ہیں، جامع مسجد کی امامت، مرکزی امام بارگاہ کی ملکیت، انجمن کی تشکیل وغیرہ پر دو تین گروہوں کے مابین تنازعہ شدت اختیار کئے ہوئے ہے، حکومت نے کئی دن تک کرفیو لگایا، اور بعض مقامات پر عوام اور سرکار کے مابین ٹسل بھی ہوئی، جس میں ایک فوجی اور ایک مقامی قبائلی جاں بحق ہوگیا۔ اس حوالے سے جب مقامی لوگوں سے پوچھا، تو انہوں نے کہا کہ یہ سب صورتحال سرکار کی پیدا کردہ ہیں، دونوں گروہوں کے درمیان اختلاف ایجاد کرکے سرکار ہی ہمیں لڑانے کی کوشش کر رہی ہے۔ 

پاراچنار سٹی میں لوگوں نے کافی خدشہ ظاہر کیا۔ اکثر کا کہنا تھا کہ ہمارے قائدین اقتدار کے نشے میں ہیں۔ اصل مسئلے کی طرف انکا کوئی دھیان نہیں۔ انکا کہنا تھا کہ 6 سال تک ہم نے جس کاز کے لئے قربانیاں دی تھیں، طالبان کی مخالفت کی تھی، اسی کاز کو اب ہم گنوا بیٹھے ہیں۔ گنے چنے افراد کے علاوہ اکثر نے اپنے قائدین کو ہدف تنقید بنایا، انکا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اپنے ان متحارب گروپوں کے قائدین چونکہ اس علاقے میں نہیں رہ رہے، ہمارے ان قائدین کی رہائش چونکہ اسلام آباد یا پشاور میں ہوتی ہے، تو انکو ہمارے مسائل سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے۔ بہر صورت جو بھی ہو، طالبان کی موجودہ سرگرمیوں کا کرم ایجنسی پر منفی اثر پڑسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 386512
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش