0
Monday 26 May 2014 21:38

بلوچستان میں "درآمد شدہ" مذہبی انتہا پسندی

بلوچستان میں "درآمد شدہ" مذہبی انتہا پسندی

رپورٹ: این ایچ حیدری

اس وقت جب پاکستان کی وفاقی حکومت کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان کے سامنے مسلسل مذاکرات کی بھیک مانگ رہی ہیں، اسی اثناء طلباء و طالبات اور استاتذہ سمیت تمام تعلیمی اداروں کو بلوچستان کے شمال مغربی شہر پنجگور میں ایک نومولود انتہا پسند تنظیم کی جانب سے مسلسل دھمکیوں اور حملوں کا خطرہ درپیش ہے۔ حال ہی میں‌ پاکستان کے میڈیا سمیت سوشل میڈیا پر فاٹا ایریا میں تعلیمی اداروں اور ملالہ یوسف زئی پر ہونے والے بزدلانہ حملوں کیخلاف سخت ردعمل دیکھنے میں آیا لیکن اسکے برعکس پنجگور میں ہزاروں کی تعداد میں عام عوام کے احتجاج کو ملکی میڈیا سمیت بین الاقوامی سطح پر کسی قسم کی کوریج نہیں‌ دی گئی۔ چند روز قبل پنجگور جیسے پسماندہ علاقے میں منظم کمیونٹی کے طور پر لڑکیوں کی تعلیم کیلئے علاقہ مکینوں کا بذاتِ خود آواز اُٹھانے کے اس عمل کی بھرپور حوصلہ افزائی ہونی چاہیئے تھی۔ ایک قبائلی صوبے میں نام نہاد اسلامی شدت پسند تنظیم کی کاروائیوں میں تیزی آنا، حکومت کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے لیکن عوامی سطح پر اس گھناؤنی سازش کیخلاف آواز اُٹھانا انتہائی خوش آئند ہے۔ خاص طور پر ایسے موقع پر جب ریاست اپنے مفادات کی خاطر بلوچوں کو اسلامی شدت پسندی کی طرف مائل کر رہی ہو۔

90ء کی دہائی تک بلوچستان میں مذہبی رجحانات انتہائی کم تھے۔ خصوصاً بلوچ علاقوں میں لوگ صدیوں سے اپنی قبائلی روایات کو ہر چیز پر مقدم جانتے تھے۔ مذہبی آزادی، قبائلی احترام، قومی برابری سمیت دیگر انمول اخلاقی و انسانی صفات یہاں کی اہم خوبیاں سمجھی جاتی تھی۔ اسی طرح ان علاقوں میں ایک عالم دین کا فریضہ زیادہ سے زیادہ پیش امام کی حد تک محدود تھا لیکن ایک منظم سازش کے تحت آہستہ آہستہ بلوچ اور پشتون بیلٹ میں عدم برداشت، تنگ نظری، مذہبی انتہا پسندی سمیت دیگر درآمد شدہ صفات کو یہاں پر پروان چڑھایا گیا۔ جب میں خود کوئٹہ کے اسلامیہ ماڈل ہائی اسکول میں زیرتعلیم تھا، تو وہاں پر میرے ایک بلوچ دوست کا تعلق پنجگور سے تھا۔ ان دنوں بلوچستان میں آہستہ آہستہ شدت پسندی کے واقعات دیکھنے میں آ رہے تھے۔ ایک دن اتفاقاً اپنے اُسی دوست جسکا نام سراج اکبر تھا، سے اس موضوع پر بات ہوئی۔ میرے دوست کا کہنا تھا کہ پنجگور میں میرے دادا خود ان تنگ نظر شدت پسندوں کے انتہائی مخالف ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ ایک دن ہمارے محلے میں "ضربِ مومن" کے نام سے مدرسے کے طالبعلم پمفلٹ تقسیم کر رہے تھے۔ اسی دوران میرے دادا نے ان میں سے ایک طالب کو پکڑ کر اسے خود تنقید کا نشانہ بنایا اور کہنے لگے کہ اگر آئندہ یہاں پر کسی بھی قسم کے پمفلٹ تقسیم کئے تو تمہاری ٹانگیں توڑ دونگا۔

اسی دن سے لیکر آج تک پنجاب سے درآمد شدہ ان شدت پسندوں کو ریاستی سرپرستی اور سعودی پیسوں کی بھرپور سپورٹ جاری ہے۔ بلوچستان کے شہر پنجگور میں واقع 23 انگلش لینگوئج سینٹرز کو ایک مبینہ نومولود مسلح گروہ کی جانب سے تعلیمی مراکز بند کرنے کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ اس مسلح دہشتگرد گروہ کا نام "تنظیم الاسلامی الفرقان" بتایا جاتا ہے۔ گذشتہ دنوں پنجگور میں اس تنظیم کی جانب سے مختلف لینگوئج سینٹرز میں اساتذہ اور طالبعلموں کو مغربی ممالک کی زبان کی تعلیم حاصل کرنے پر قتل کی دھمکی دی گئی۔ انکے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کا اکھٹے مخلوط تعلیم حاصل کرنا غیر شرعی فعل ہے۔ ضلع پنجگور کے ایس ایچ او محمد مراد کا واقعے کی ایف آئی آر درج کرتے ہوئے مقامی میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا کہ لینگوئج سینٹرز سے گھر جاتے ہوئے طالبات کو دہشتگرد گروہ کی جانب سے دھمکیاں ملیں۔ انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ مغربی طرز تعلیم کو اپنانے کی صورت میں انہیں سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

واقعے کے بعد مقامی پولیس نے علاقہ کے سینٹرز کی سکیورٹی سخت کر دی ہے۔ تنظیم الاسلامی الفرقان نے مزید خبردار کیا ہے کہ اگر کسی بھی ٹیکسی، بس یا رکشہ ڈرائیور نے طالبات کو کسی بھی تعلیمی مرکز میں لے جانے کی کوشش کی تو انہیں بھی مارا جائے گا۔ واقعے کیخلاف علاقہ مکینوں نے ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ انتظامیہ کے دفاتر کے سامنے احتجاج کیا۔ پولیس کی یقین دہانی کے بعد مظاہرین منتشر ہوگئے۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ مبینہ تنظیم پنجگور میں‌ سکیورٹی فورسز کی جانب سے حالیہ آپریشنز کے بعد وجود میں آئی ہے جوکہ علاقے میں انتہاء پسندی کو فروغ دینے کی ایک بُری سازش ہے۔ یاد رہے بلوچستان میں ضلع پنجگور اور کیچ ڈسٹرکٹ وہ علاقے ہیں، جہاں سے اکثر اعلٰی تعلیم یافتہ طالبعلم نمودار ہوئے ہیں اور صوبے کے اکثر اعلٰی سرکاری عہدیداروں کا تعلق انہی علاقوں سے ہے۔

بلوچستان میں ان شدت پسندوں سے نہ صرف بلوچ عوام، بلکہ صوبے میں آباد پشتون، ہزارہ اور پنجابی سمیت ہمسایہ ممالک کے سکیورٹی مفادات کو بھی سخت خطرات لاحق ہیں۔ انہی شدت پسندوں کی کاروائیوں کی وجہ سے اب تک بلوچستان میں ہزاروں بے گناہ شیعہ ہزارہ قوم کا قتلِ عام بھی ہو چکا ہے جبکہ اکثر و بیشتر بلوچستان سیستان پر اسلامی جمہوریہ ایران کے بارڈر پر مامور فوجی اہلکاروں پر بھی یہی شدت پسند تنظیمیں حملہ آور ہوتی ہیں۔ اگر مرکزی حکومت ہمسایہ ممالک کیساتھ "عدم مداخلت اور برابری" کی پالیسی کا نفاذ عملی طور پر کرنا چاہتی ہیں، تو اسے بلوچستان میں بڑھتے ہوئے مذہبی انتہا پسندوں کے نیٹ ورکس کو ختم کرنا ہو گا۔

خبر کا کوڈ : 386563
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش