0
Tuesday 3 Jun 2014 21:13

پاکستان اور بھارت میں اعتماد کی بحالی کا فائدہ پورے خطے کو ہو گا، نذیر گیلانی

پاکستان اور بھارت میں اعتماد کی بحالی کا فائدہ پورے خطے کو ہو گا، نذیر گیلانی

اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کونسل برائے انسانی حقوق کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر سید نذیر گیلانی نے پانچ مختلف حکومتوں میں تقسیم کشمیری عوام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان دوطرفہ تنازعے کی بجائے کشمیریوں کے حق خودارادیت اور اقوام متحدہ کے تفویض کردہ عالمی کردار کو اجاگر کیا جائے۔ حق خودارادیت کو نظر انداز کر کے مسئلہ کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعے کے طور پر اجاگر کرنے کے سنگین مضمرات ہو سکتے ہیں۔ ایک انٹرویو میں ڈاکٹر سید نذیر گیلانی نے کہا کہ اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے تنازعے کے طور پر نہیں بلکہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کے طور پر موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بالخصوص جنوبی ایشیاء کے خطے میں تیزی سے تبدیلی رونما ہو رہی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں بھارت پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے الزام میں نرمی پیدا کر دے ایسی صورت میں یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان جواب میں کشمیر پر بھارت کو رعایت دے دے یا کشمیر پر اپنا موقف نرم کر دے، اگر ایسا ہوا تو کشمیریوں کے لیے انتہائی مشکل وقت ہو گا۔ چنانچہ ضروری ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو پاکستان، بھارت یا چین کی جنگ کی صورت میں نہ دیکھا جائے۔

انہوں نے کہا کہ تاریخ میں پہلی بار بھارتی وزیراعظم نے تقریب حلف برداری میں وزیراعظم پاکستان کو مدعو کیا اس اقدام سے دونوں ملکوں کے درمیان بداعتمادی، اعتماد میں بدلنے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ میرے خیال میں جمود ٹوٹنے کی شروعات ہوئی ہیں۔ دونوں ملکوں میں اعتماد کی بحالی کا فائدہ پورے خطے کو ہو گا۔ بھارت دنیا میں بڑی جمہوریت کا دعویدار ہے، وہاں ایک بڑی سول سوسائٹی موجود ہے۔ اسی طرح پاکستان بھی ایک بڑا ملک ہے جس نے اپنے اداروں، معیشت کو مضبوط کرنا ہے۔ غربت کے خاتمے اور معاشی ترقی کے لیے علاقائی امن و استحکام انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان میں قیام امن ناصرف پاکستان بلکہ اس کے پڑوسیوں کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں امن سے بھارت کا بھی مفاد وابستہ ہے۔ اب دونوں ملک جنگ کی طرف نہیں بلکہ امن کی طرف بڑھنے کے خواہش مند ہیں۔ 

نذیر گیلانی نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان نے 28 مئی کو یوم تکبیر کے موقع پر لاہور میں خطاب کرتے ہوئے دو ٹوک واضح کیا تھا کہ ہم پڑوسیوں سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ امن و ترقی کے لیے تعلقات انتہائی اہم ہیں۔ انہوں نے دورہ بھارت کو اچھا قرار دیا تھا اور کہا کہ معاملات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ نواز شریف نے کہا تھا کہ پاکستان جلد امن کا مرکز بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ معاشی ترقی اور امن کے قیام کے لیے پاکستان کو پڑوسیوں بالخصوص بھارت سے تعلقات سے اچھی ترجیح ہونی چاہیے۔ ان حالات میں اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان اچھے تعلقات قائم ہو جاتے ہیں۔ بھارت دہشت گردی کا الزام ترک کر دیتا ہے تو جواب میں پاکستان کشمیر کا موقف نرم کر سکتا ہے چنانچہ ایسی صورتحال میں کشمیریوں کا راستہ کون سے ہو گا؟۔ 

انہوں نے کہا کہ نوازشریف کے دورہ بھارت کے بعد کشمیریوں میں ایک بحث چل رہی ہے کہ نواز شریف نے بھارت میں مسئلہ کشمیر نہیں اٹھایا۔ بھارتی وزیراعظم سے ملاقات کے بعد بھی بیان میں مسئلہ کشمیر موجود نہیں تھا۔ اس بحث کے تناظر میں یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ کشمیری عوام جو کہ پانچ حکومتوں میں تقسیم ہیں ان کے لیے پانچ آئین ہیں اور یہ کہ بڑی تعداد میں کشمیری بیرونی دنیا میں بھی آباد ہیں۔ ان کی زندگیاں آسان نہیں ہیں چنانچہ انہیں کشمیر کو ملکوں کی جنگ یا تنازعہ قرار دینے کی بجائے اپنے عالمی کردار پر فوکس کرنا چاہیے۔ کشمیریوں کا عالمی کردار اقوام متحدہ کے میکنزم میں موجود ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت پاکستان اور بھارت کشمیریوں کو اچھی زندگی اور اچھی حکمرانی دینے کے پابند ہیں۔ اس عمل کے لیے بھی کشمیریوں کو پاکستان اور بھارت کے بجائے اقوام متحدہ سے رجوع کرنا چاہیے۔

خبر کا کوڈ : 388879
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش