0
Thursday 19 Jun 2014 20:04

داعش کا اگلا ہدف اردن ہے، امریکی تھنک ٹینک کی پیشین گوئی

داعش کا اگلا ہدف اردن ہے، امریکی تھنک ٹینک کی پیشین گوئی
اسلام ٹائمز۔ امریکہ کے معروف تحقیقاتی ادارے اور تھنک ٹینک "سٹریٹفور" نے حال ہی میں شائع ہونے والے اپنے ایک مقالے میں دعوی کیا ہے کہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش یا آئی ایس آئی ایل اپنے زیرتسلط علاقوں کو مزید پھیلانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ لہذٰا وہ عراق کے بعد اردن کا رخ کر سکتا ہے۔ اس مقالے میں کہا گیا ہے کہ اردن کی سرحد سے محض ۱۸۰ کلومیٹر پر واقع عراق کے مغربی شہروں سے عراق آرمی کی پسپائی نے عمان کو بہت کمزور کر دیا ہے اور اردن کو داعش کے اگلے ہدف کے طور پر پیش کر دیا ہے۔ لہذٰا اردن نے عراق سے ملحقہ سرحد پر فوج تعینات کرنا شروع کر دی ہے۔

سٹریٹفور کی جانب سے شائع ہونے والے اس مقالے میں مزید کہا گیا ہے کہ عمان نے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی جانب سے لاحق جارحیت کے خطرے سے نمٹنے کیلئے عراق کے ساتھ اپنی ملحقہ سرحد پر سکیورٹی اقدامات میں اضافہ کر دیا ہے۔ دوسری جانب داعش انتہائی آہستگی کے ساتھ اردن کی جانب پیش قدمی کر رہی ہے جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ حال ہی میں اردن کے اندر داعش کے ایک ذیلی گروہ نے بھی اپنی موجودیت کا اعلان کر دیا ہے۔ اس مقالے کے مطابق تکفیری دہشت گرد گروہ داعش یا آئی ایس آئی ایس کی جانب سے اردن پر جارحیت جغرافیائی سیاست یا جیوپولیٹیکس کے اصولوں کے تحت انجام پائے گی کیونکہ شام اور عراق کے بعض علاقوں پر قبضے کے بعد اب یہ گروہ دو جانب سے اردن پر حملہ کرنے کی پوزیشن میں آ چکا ہے۔ لیکن داعش کو اپنے اس ہدف کے حصول میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ اردن کی آرمی ایک انتہائی تربیت یافتہ اور مضبوط آرمی محسوب ہوتی ہے۔

معروف امریکی تھنک ٹینک کے اس تحقیقاتی مقالے میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ اردن کے امریکہ اور سعودی عرب کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات استوار ہیں لیکن ان دو ممالک کی جانب سے اردن کی بھرپور انٹیلی جنس، مالی اور فوجی امداد کے باوجود یہ ملک مسلح دہشت گرد عناصر کے ایک مضبوط گڑھ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف اردن میں اس وقت داعش کے مخالف تکفیری گروہوں جیسے النصرہ فرنٹ کا گہرا اثرورسوخ موجود ہے اور وہاں "ابومحمد المقدسی" اور "ابوقتادہ" جیسے القاعدہ کمانڈرز موجود ہیں جو داعش کو القاعدہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے پر شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

سٹریٹفور کے اس مقالے میں القاعدہ کی جانب سے ماضی میں اردن میں انجام پانے والے دہشت گردانہ اقدامات جیسے ۲۰۰۵ء میں تین ہوٹلز میں بم دھماکے اور ۲۰۰۰ء میں ایک امریکی سفارتکار کا قتل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ داعش کا دہشت گرد گروہ بھی اردن میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے بعد دہشت گردانہ کاروائیاں شروع کر سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 393506
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش