0
Wednesday 2 Jul 2014 22:47
داعش سمیت دوسرے امریکی پٹھووں کا ایک بڑا مقصد ایران کو کمزور کرنا ہے

تکفیری دہشتگرد گروہ "داعش" مغربی اور صہیونیستی اہداف کے حصول کیلئے کوشاں ہے، القاعدہ کے بانی کمانڈر شیخ نبیل نعیم

داعش کا کام صرف مسلمانوں کا قتل عام ہے، انہیں خود دین اسلام کی کوئی پہچان نہیں
تکفیری دہشتگرد گروہ "داعش" مغربی اور صہیونیستی اہداف کے حصول کیلئے کوشاں ہے، القاعدہ کے بانی کمانڈر شیخ نبیل نعیم
رپورٹ: زیڈ اے ہمدانی

مصر میں جہادی گروہ "الجھاد مصر" اور القاعدہ کے بانیوں میں شمار ہونے والے سابق جہادی کمانڈر شیخ نبیل نعیم جو افغانستان میں ایمن الظواہری اور بن لادن کے ساتھ جہادی سرگرمیاں بھی انجام دے چکے ہیں نے المیادین نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انتہائی اہم حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ اس انٹرویو کی تفصیلی رپورٹ اسلام ٹائمز کے قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔

القاعدہ کے بانی کمانڈر شیخ نبیل نعیم نے کہا کہ میں القاعدہ سے علیحدہ نہیں ہوا بلکہ القاعدہ اپنے حقیقی راستے سے منحرف ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق سوویت یونین کی جانب سے افغانستان پر قبضے کے زمانے میں تمام مسلمان علماء کے درمیان یہ اتفاق رائے پایا جاتا تھا کہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جاری جنگ "جہاد فی سبیل اللہ" ہے لیکن اس کے بعد القاعدہ نے اپنی سرگرمیوں کا رخ عربی اور اسلامی ممالک میں عام مسلمانوں کے قتل و غارت کی جانب پھیر دیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ القاعدہ کے سرگرم اراکین "تکفیری" ہو گئے جبکہ خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:"و من یقتل مومنا متعمدا فجزاؤه جهنم خالدا فیها و غضب الله علیه و لعنه و اعد له عذابا عظیما" [سورہ نساء، آیہ 93]۔ "اور جو شخص مسلمان کو قصدا مار ڈالے گا تو اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور خدا اس پر غضب ناک ہو گا اور اس پر لعنت کرے گا اور ایسے شخص کیلئے اس نے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے"۔

شیخ نبیل نعیم نے کہا کہ القاعدہ کے بعض کمانڈرز نے مجھے بھی کافر قرار دے دیا لیکن چونکہ میں اس گروہ کے بانی رہنماوں میں شمار ہوتا تھا لہذٰا مجھے قتل کرنے سے باز رہے۔ انہوں نے تکفیری دہشت گرد گروہ "داعش" کے بارے میں کہا کہ داعش 2006ء میں تشکیل پائی جبکہ القاعدہ نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز 1989ء میں کیا تھا لہذٰا داعش کو القاعدہ کا ذیلی گروہ قرار دینا صحیح نہیں بلکہ داعش ایک طرح سے القاعدہ کا پیروکار گروہ ہے جو القاعدہ پر ایمان لا چکا ہے۔ ابوبکر البغدادی امریکی پٹھو ہے۔ اس نے ایمن الظواہری سے کہا کہ اس کے ہاتھ پر بیعت کرے۔ البغدادی خود کو خلافت کا حق دار تصور کرتا ہے اور یہ دعوی کرتا ہے کہ اس کا مقصد شام اور عراق کو آزاد کروانا ہے۔ ایمن الظواہری نے اس کی بات نہ مانی اور یوں دونوں کے درمیان مسلح جنگ شروع ہو گئی۔

شیخ نبیل نعیم نے کہا کہ ابوبکر البغدادی عراق میں امریکی جیل میں قید تھا لیکن اسے آزاد کر دیا گیا اور اس نے آزاد ہونے کے بعد دہشت گرد افراد کو جمع کرنے میں 20 سے 30 ملین کے لگ بھگ رقم خرچ کر ڈالی۔ ابتدا میں داعش کے ٹریننگ کیمپس اردن میں بنائے گئے اور یہ مراکز امریکہ کی زیرسرپرستی کام کرتے تھے۔ اسی طرح داعش کے پاس موجود ہتھیار اور اسلحہ بھی امریکی ساختہ ہے۔ دہشت گرد تکفیری گروہ داعش کے زخمی ہونے والے افراد کو علاج کیلئے اسرائیل لے جایا جاتا ہے۔ ہمارے پاس موجود معتبر معلومات کے مطابق اس وقت بھی داعش کے تقریبا 1500 دہشت گرد تل ابیب کے اسپتالوں میں زیرعلاج ہیں۔ القاعدہ کے بانی کمانڈر شیخ نبیل نعیم نے مزید کہا کہ افغانستان پر سابق سوویت یونین کے قبضے کے دوران القاعدہ کو دی جانے والی امداد اعلانیہ طور پر دی جاتی تھی لیکن افغانستان سے سوویت یونین کی پسپائی کے بعد امریکہ نے القاعدہ میں سرگرم تمام عرب جنگجووں کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ امریکہ نے اسی وقت بڑی تعداد میں عرب افغانیوں کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔ اس کے بعد القاعدہ نے نائن الیون حملے انجام دیئے۔

شیخ نبیل نعیم نے کہا کہ اسامہ بن لادن کی موت کے بعد قطر کی انٹیلی جنس ایجنسی نے القاعدہ کو خرید لیا۔ ترکی کے شہر استنبول میں برگزار ہونے والی ایک میٹنگ جس میں اخوان المسلمین مصر کے رہنما بھی شریک تھے قطر نے اعلان کیا کہ وہ "مصر فری آرمی" کو 2 ارب ڈالر کی امداد دے گا۔ اس فنڈ کا مسئول بھی ترکی میں موجود اخوان المسلمین کے ایک رہنما کو بنایا گیا۔ اس کے بعد القاعدہ کے تمام اخراجات اس فنڈ سے چلتے تھے۔ شیخ نبیل نعیم نے کہا کہ تکفیری دہشت گرد گروہ "داعش" کی بنیاد عراق میں ڈالی گئی اور اس گروہ کا سربراہ ابوبکر البغدادی بھی عراقی ہے۔ اس کے بعد اردن میں داعش کیلئے ٹریننگ کیمپس بنائے گئے اور داعش کے دہشت گرد ان مراکز میں فوجی تربیت حاصل کرنے کے بعد شام بھیجے جاتے تھے۔ شام میں بدترین شکست سے دوچار ہونے کے بعد داعش نے عراق کا رخ کیا ہے۔ لیکن جو کچھ عراق میں ہو رہا ہے وہ داعش کے بس کی بات نہیں بلکہ اس میں بعض دوسری قوتیں بھی ملوث ہیں۔

شیخ نبیل نعیم نے کہا کہ عراق کے صوبہ الانبار میں رہنے والے عرب شہریوں اور وزیراعظم نوری مالکی کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔ داعش خوف اور وحشت کی فضا قائم کرنا چاہتی ہے۔ ابوبکر المقدسی نے چنگیز خان والی پالیسیاں اختیار کر رکھی ہیں۔ چنگیز خان جب بھی کسی گاوں یا قصبے پر قبضہ کرتا تھا تو وہاں موجود ہر چیز کو نیست و نابود کر دیتا تھا اور حتی وہاں پر موجود تمام حیوانات اور جانوروں کو بھی ذبح کروا دیتا تھا۔ اس کے بعد جب دوسرے گاوں والے یہ سنتے تھے کہ چنگیز خان ان کے گاوں پر حملہ کرنے والا ہے تو خوف کے مارے گاوں چھوڑ کر بھاگ جاتے تھے۔ بالکل یہی کام داعش کے دہشت گرد انجام دے رہے ہیں۔ داعش نے جب سامراء پر حملہ کیا تو 1 ہزار سنی مسلمانوں کو قتل کر دیا اور اب شیعہ مسلمانوں کو قتل کرنے میں مصروف ہے۔ یہ درحقیقت امریکی سیاست ہے۔ معروف امریکی محقق ہنری کیسنجر نے ایک نظریہ پیش کیا ہے جس کا عنوان ہے "سو سالہ جنگ"۔ اس نظریئے میں شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان جنگ کا فرضیہ پیش کیا گیا ہے۔ ابومصعب الزرقاوی ایسا شخص تھا جو سنی اور شیعہ مساجد کو بم دھماکوں سے اڑا دیتا تھا۔ اس کا مقصد خطے میں شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان جنگ کی آگ بھڑکانا تھا۔ یہ امریکی سیاست تھی۔

الجھاد مصر کے بانی رہنما شیخ نبیل نعیم نے کہا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ داعش نے آج تک ایک امریکی شہری کو بھی قتل نہیں کیا اور ایک امریکی کا بھی سر نہیں کاٹا؟ داعش صرف مسلمانوں کو ہی کیوں قتل کر رہا ہے؟ انہوں نے خود تو دین اسلام کو پہچانا نہیں ہے لیکن دوسروں کے کفر کے فتوے جاری کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عقائد کے اعتبار سے القاعدہ اور داعش میں کوئی فرق نہیں رہا اور ان دونوں گروہوں میں موجود فرق صرف تنظیمی سطح کا ہے۔ القاعدہ کے بانی کمانڈر شیخ نبیل نعیم نے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش یا آئی ایس آئی ایس کے مستقبل کے بارے میں کہا کہ جس قدر مسلمان نوجوان تکفیری سوچ کی جانب جذب ہوں گے داعش اسی قدر طاقتور ہوتا چلا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جنگ کی چوتھی نسل میں مختلف ممالک کو بڑی بڑی مسلح افواج کی ضرورت نہیں بلکہ وہ اپنے سیاسی اہداف اپنے پٹھو مسلح گروہوں کے ذریعے حاصل کر پائیں گے۔ لہذا جدید دور میں مختلف ممالک کو اپنے سیاسی اہداف کے حصول کیلئے طاقتور میڈیا کی ضرورت ہو گی جو عوام کو موجودہ حقائق اپنی مرضی کے مطابق پیش کریں گے اور ان کی سوچ کو اپنی نہج پر لانے کی کوشش کریں گے۔

شیخ نبیل نعیم نے کہا کہ اس وقت القاعدہ اور داعش جیسے تکفیری دہشت گرد گروہ امریکہ کے مفادات کی خاطر جنگ کر رہے ہیں۔ وہ سنی، شیعہ اور موجودہ حکومتوں کے ساتھ جنگ کی حالت میں ہیں۔ داعش سے وابستہ تکفیری دہشت گرد عناصر تمام لوگوں کو کافر اور خود کو مباح سمجھتے ہیں۔ اگر ماضی میں جھانکیں تو دیکھیں گے کہ جن افراد نے ہمارے آقا امام علی [علیہ السلام] کو قتل کیا اور [امام] حسین [علیہ السلام] کا سر کاٹا وہ بھی خود کو مسلمان کہلواتے تھے۔ القاعدہ اور داعش خوارج والے منحرف افکار کے حامل ہیں۔ داعش نے اب تک ایک امریکی کو نہیں مارا اور وہ مسلح گروہ جو نہایت شدت کے ساتھ شام میں صدر بشار اسد کے خلاف برسرپیکار ہیں انہوں نے ابھی تک اسرائیل کی جانب ایک گولی بھی فائر نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ القاعدہ اور داعش سے وابستہ تکفیری دہشت گردوں کا عقیدہ یہ ہے کہ مرتد کے ساتھ جنگ کو اصلی کافر کے ساتھ جنگ پر اولویت حاصل ہے۔ ان کے عقیدے میں عرب حکمران اور عرب مسلح افواج مرتد ہو چکے ہیں اور ان کے ساتھ جنگ کفار کے ساتھ جنگ چاہے وہ یہودی ہی کیوں نہ ہوں اولویت رکھتی ہے۔

القاعدہ کے بانی رہنما شیخ نبیل نعیم نے کہا کہ اخوان المسلمین کا رہنما "عصام حتیتو" جو شام میں صدر بشار اسد کے خلاف برسرپیکار ہے اس وقت کہاں رہ رہا ہے؟ تل ابیب میں۔ اسی طرح "احمد الجربا" بھی پیرس اور لندن میں بیٹھ کر شام میں برسرپیکار مسلح باغیوں کو ہدایات جاری کرتا ہے۔ امریکہ ایک طرف داعش اور النصرہ فرنٹ کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے اور دوسری طرف یہ کہتا ہے کہ یہ اسلحہ غیرقانونی طور پر ان کے ہاتھ لگا ہے اور ہمارا ایسا کوئی منصوبہ نہیں کہ شام کے باغیوں کو اسلحہ فراہم کریں۔

شیخ نبیل نعیم نے کہا کہ 1989ء میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیٹن یاہو اور سابق امریکی وزیر دفاع ڈک چنی کے درمیان طے شدہ منصوبے کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ چار ممالک کو ختم ہونا چاہیئے۔ اس منصوبے کا آغاز عراق سے ہوتا ہے، اس کے بعد شام پھر مصر اور پھر سعودی عرب کی باری آتی ہے۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا کام خطے میں سرگرم شدت پسند گروہوں کے ذمے لگایا گیا ہے۔ مصر کے سابق صدر محمد مرسی امریکہ کے بندے تھے اور امریکہ سے دستورات لیتے تھے۔ امریکہ نے انہیں حکم دیا تھا کہ خطے میں موجود شدت پسند تکفیری گروہوں کی مدد کریں۔ اسی طرح محمد مرسی القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری سے بھی رابطے میں تھے۔

شیخ نبیل نعیم نے کہا کہ خطے میں موجود داعش سمیت دوسرے امریکی پٹھووں کا ایک بڑا مقصد ایران کو کمزور کرنا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایران کو جنگ میں مصروف کر دیں۔ دہشت گرد تکفیری گروہ داعش نے عراقی وزیراعظم نوری مالکی کے ساتھ اختلافات پیدا ہونے کے بعد اپنے پہلے بیانئے میں کہا تھا کہ ہم کربلا اور نجف آئیں گے اور مزارات مقدسہ کو مسمار کر دیں گے۔ وہ ایران کو جنگ کی جانب دھکیلنا چاہتے ہیں۔ وہ ایران کو ایک ایسی نامحدود جنگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں جس کے نتیجے میں ایران نیست و نابود ہو جائے۔ وہ ایک ایسی جنگ شروع کرنا چاہتے ہیں جیسی صدر صدام کے دور میں عراق اور ایران میں انجام پائی تھی۔

القاعدہ کے بانی کمانڈر شیخ نبیل نعیم نے کہا کہ ایک منصوبے کے تحت یہ طے پایا تھا کہ اگر مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت مضبوط ہو جاتی ہے تو وہاں بدامنی پھیلائی جائے۔ اس منصوبے کا اعتراف دوبئی پلیس کے سربراہ ضاحی خلفان بھی کر چکے ہیں۔ ان تمام سازشوں اور منصوبوں کا واحد ہدف اسرائیل کی قومی سلامتی کو محفوظ بنانا ہے۔ اسرائیل ایک ایسی کمزور رژیم ہے جسے اپنے وجود کو باقی رکھنے کیلئے ہمیشہ دوسروں کی مدد کی ضرورت ہے۔ شیخ نبیل نعیم نے داعش کے ساتھ مقابلہ کرنے کی نوعیت کے بارے میں کہا کہ جامعہ الازھر داعش کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جامعہ الازھر نے 40 سال سے چپ سادھ رکھی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب کے ڈالرز اور سعودی مفتیوں کی آواز الازھر سے زیادہ اونچی تھی۔ مصر میں تشکیل پانے والے سلفی گروہوں کا مقصد بھی الازھر سے مقابلہ کرنا تھا۔ اس وقت ہماری اہم ضرورت دینی علماء کی جانب سے داعش کا مقابلہ کرنا ہے۔ مسلمان حکومتوں کو بھی چاہیئے کہ وہ میڈیا اور مسلح افواج کے ذریعے تکفیری دہشت گروہ داعش کا مقابلہ کریں۔
منبع : سیاست ما
خبر کا کوڈ : 396035
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش