0
Monday 18 Aug 2014 12:49

بلوچ لاپتہ افراد کی اصل تعداد کا معمہ!

بلوچ لاپتہ افراد کی اصل تعداد کا معمہ!
رپورٹ: این ایچ حیدری

پاکستان سے الحاق سے قبل بلوچستان چار ریاستوں مکران، لسبیلا، خاران اور قلات پر مشتمل تھا۔ جن میں سے تین ریاستیں مکران، لسبیلا اور خاران 1947ء میں پاکستان کیساتھ شمولیت پر رضامند ہوئیں لیکن قلات کے سربراہ احمد یار خان جسے "خان آف قلات" کہا جاتا تھا، نے آزادی کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک خودمختار ریاست کے بنانے کو ترجیح دی۔ اپریل 1948ء کو پاکستان نے فوجی دستے تعینات کرتے ہوئے قلات کو بھی پاکستان کیساتھ شامل ہونے پر مجبور کیا۔ احمد یار خان کے بھائی پرنس کریم خان بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے مسلح جدوجہد شروع کرنے کی غرض سے افغانستان کی جانب چلے گئے۔ جون 1948ء کو پورا بلوچستان باقاعدہ طور پر پاکستان کا حصہ بن گیا۔ اسکے بعد صوبے میں باقاعدہ طور پر مسلسل تین مرتبہ انسرجنسی 1958ء، 1962ء اور 1973ء میں دیکھنے میں آئی اور پانچویں قومی تحریک 2002ء میں شروع ہوئی۔ سن اٹھاون کی بغاوت ون یونٹ پلان کی وجہ سے شروع ہوئی۔ جسکا اجراء 1955ء میں کیا گیا تھا۔ جو آگے چل کر مزید پیچیدگیوں کا باعث بنی اور نوروز خان (خان آف قلات) نے 1957ء میں ایک مرتبہ پھر آزادی کا اعلان کر دیا۔ اسکے اگلے دن ملک میں مارشل لاء کا نفاذ ہوا اور نوروذ خان گرفتار ہوکر جیل میں آزادی کا خواب لئے فوت ہوگئے۔

اسی دن سے لیکر آج تک صوبہ بلوچستان میں لاپتہ افراد، مسخ شدہ لاشیں اور فوجی آپریشنز سمیت بلوچ مسلح جدوجہد کا سلسلہ جاری ہیں۔ لاپتہ افراد کا مقدمہ ان افراد کو بازیاب کروانے کے لیے پاکستان کی عدالت عظمٰی میں دائر کیا گیا تھا، جن کو 2001ء کی دہشتگردی پر جنگ شروع ہونے کے بعد پاکستان کے مختلف شہروں اور قصبوں سے پولیس، خفیہ اداروں، اور آئی ایس آئی نے اغواء کرکے غیر قانونی طور پر مقید کیا ہوا تھا۔ ان میں سے بعض کو امریکہ کے حوالے کر دیا گیا۔ جن کی اکثریت افغانستان میں امریکی فوجی عقوبت خانوں میں قید ہے۔ پاکستان میں قید ہونے والوں سے بھی امریکی اہلکار تشدد اور پوچھ گچھ میں ملوث ہیں۔ امریکیوں کا بظاہر مقصد طالبان کے رہنماوں کا پتہ چلانا ہے۔ اغواء کنندگان کی کچھ تعداد بلوچستان کی قومیتی جماعتوں سے تعلق رکھتی ہے۔ جن کے بارے میں خفیہ اداروں کو بیرونی ممالک کی شہہ پر وفاق کو نقصان پہنچانے کا شبہ ہے۔ لاپتہ افراد کے بارے میں تحقیق کرنے کے لیے عدالت عظمٰی کے سابق سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں حالات خراب کرنے اور لوگوں کو لاپتہ کرنے میں بیرونی خفیہ ادارے ملوث ہیں۔ جن کے پاس مکمل نیٹ ورک، اسلحہ، تربیت اور دیگر وسائل موجود ہیں اور ان کے مقابلے میں ہمارے اداروں خصوصاً بلوچستان پولیس کی استعداد کار، تربیت اور وسائل کم ہیں۔ لاپتہ افراد کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہے، لیکن دعوے کرنے والی انسانی حقوق اور لاپتہ افراد کی تنظیمیں مکمل کوائف پر مشتمل فہرست جمع نہیں کراتیں۔ تیس مئی دو ہزار بارہ تک پاکستان میں لاپتہ افراد کی تعداد چار سو ساٹھ تھی۔ جن میں ستاون کا تعلق بلوچستان سے ہے۔

دریں اثناء وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز تنظیم کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے کوئٹہ سے کراچی اور پھر اسلام آباد تک کا پیدل لانگ مارچ کیا، جسے ملکی و غیر ملکی میڈیا کی جانب سے کافی حد تک کوریج بھی ملی۔ مارچ کا مقصد دنیا کو لاپتہ افراد کے بارے میں آگاہ کرنا تھا، اور ریاستی اداروں پر انکی بازیابی کیلئے دباؤ ڈالنا تھا۔ اس تنظیم کے مطابق بلوچستان میں اب تک تقریباً انیس ہزار سے زائد افراد کو لاپتہ کیا جا چکا ہے، جسکی فہرست اقوام متحدہ اور یورپی یونین کو بھی پیش کی گئی ہے۔ تشدد زدہ لاشوں کی برآمدگی سے متعلق وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز کا دعویٰ ہے کہ ان کی تعداد دو ہزار سے زائد ہے۔ دوسری جانب محکمہ داخلہ بلوچستان کے وزیر سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ انکے پاس صرف چھیالیس لاپتہ افراد کی فہرست موجود ہیں۔ یہی سوال جب وزیراعلٰی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے کیا جاتا ہے تو وہ لاپتہ افراد کی تعداد بتانے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ جب میاں محمد نواز شریف نے اقتدار سنبھال کر آل پارٹیز کانفرنس منعقد کروائی تو اس وقت ڈاکٹر مالک نے لاپتہ افراد کی بازیابی اور مسخ شدہ لاشوں کی روک تھام تک مسئلہ بلوچستان کو حل ناممکن قرار دیا تھا۔ بعدازاں پاک افواج کی جانب سے مسخ شدہ لاشوں کے حوالے سے نرمی دیکھنے میں آئی، جبکہ گذشتہ دنوں کمانڈر سدرن کمانڈ جنرل ناصر خان جنجوعہ نے بھی کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگو میں اعتراف کیا کہ جنوری سے لیکر اب تک ایک بھی مسخ شدہ لاش کے پیچھے خفیہ اداروں کا کوئی ہاتھ نہیں۔ لہذٰا اگر کوئی واقعہ رونماء ہوا بھی ہے تو اس میں بیرونی ممالک کی مداخلت ہو سکتی ہے، جسکی تحقیقات صوبائی حکومت پر لازم ہے۔ بعدازاں وزیراعلٰی بلوچستان نے بھی مسخ شدہ لاشوں میں کمی کا اعتراف کیا۔ انکا کہنا تھا کہ اسی طرح اگر لاپتہ افراد کی بازیابی پر بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے تو بلوچ مسلح گروہوں‌ سے بات چیت ہو سکتی ہیں اور بلوچستان میں اے پی سی کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔ لاپتہ افراد کے اعداد و شمار میں تضاد اپنی جگہ، لیکن مسخ شدہ لاشوں کی سنجیدگی کا اندازہ ریاستی اداروں کو ہو چکا ہے۔ لہذا اب لاپتہ افراد کی تعداد سے ماوراء، جتنے بھی گمشدہ افراد ریاستی تحویل میں ہیں، انہیں عدالتوں میں پیش کرکے انکے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ صوبے میں جاری شورش کو سول ملٹری باہمی تعاون اور اعتماد ہی سے حل کیا جا سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 405355
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش