0
Wednesday 20 Aug 2014 16:39

داعش کیخلاف کرد خواتین بھی میدان میں

داعش کیخلاف کرد خواتین بھی میدان میں
رپورٹ: آئی اے خان

عراق کی افواج نے داعش کے خلاف بھرپور کارروائی کرتے ہوئے موصل ڈیم کا قبضہ چھڑا لیا ہے۔ نینویٰ کے گورنر کا کہنا ہے کہ نیم خود مختار صوبہ کردستان کی فوج البشمرگہ نے موصل ڈیم کے اہم مقامات پر قبضہ کر لیا ہے۔ عراقی فوج کے ایک ترجمان نے بھی موصل ڈیم پر داعش کا قبضہ ختم کرنے کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ زمینی اور فضائی آپریشن میں عراقی فوج نے کرد فوجیوں کی بھرپور مدد کی ہے۔ دوسری جانب امریکی فوج نے بھی ڈرون طیاروں کی مدد سے داعش کے ٹھکانوں پر حملے کئے ہیں۔ امریکی فوج کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ موصل ڈیم کا قبضہ چھڑانے کے لیے پندرہ فضائی حملے کئے گئے ہیں۔ موصل ڈیم کے قریب امریکی فوج کے جنگی طیاروں اور بغیر پائلٹ کے ڈرون طیاروں کی مدد سے داعش کے 09 ٹھکانے اور آٹھ بکتر بند گاڑیاں تباہ کر دی گئی ہیں۔ بمباری کے باوجود داعشی جنگجوؤں اور کرد فوجیوں کے درمیان ڈیم کے قریب گھمسان کی جنگ بھی جاری ہے۔

قبل ازیں عراقی ٹی وی نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ موصل ڈیم کے قریب قبضہ جمائے داعشی جنگجوؤں پر عراقی فوج اور کرد فورسز نے مشترکہ حملہ کیا ہے، جس کے بعد عسکریت پسند وہاں سے فرار ہوگئے ہیں۔ رپورٹ میں عراقی فوج کے ترجمان جنرل قاسم عطاء کے ایک بیان کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ موصل ڈیم کے قریب داعش کے عسکریت پسندوں کے خلاف زمینی اور فضائی آپریشن میں عراقی فوج نے بھرپور معاونت کی ہے۔ ادھر امریکی صدر باراک اوباما نے عراق میں جاری فوجی کارروائی کے حوالے سے کانگریس کو اعتماد میں لیا ہے۔ کانگریس کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موصل ڈیم کو داعش کے جنگجوؤں کے قبضے سے چھڑانا ضروری تھا کیونکہ اس ڈیم پر عسکریت پسندوں کے قبضے کے بعد نہ صرف عراقی شہریوں کی زندگیاں خطرات سے دوچار ہوگئی تھیں بلکہ وہاں پر موجود امریکی شہری اور بغداد میں امریکی سفارت خانہ بھی خطرے کی زد میں آ گئے تھے۔ تاہم انہوں نے کانگریس کو یہ بھی یقین دلایا کہ عراق میں امریکی فوج کے فضائی حملے محدود رہیں گے۔

داعش کے ٹھکانوں پر امریکی بمباری سے قبل داعش نے انٹرنیٹ پر ایک وڈیو جاری کی، جس میں عراق کی شدت پسند تنظیم "داعش" نے ایک یرغمال امریکی صحافی جیمز رائٹ فولی کا سر قلم کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ تنظیم نے کہا ہے کہ اس کے اس قدم کا مقصد امریکہ کو عراق میں مداخلت روکنے کا پیغام دینا ہے۔ ادھر اوباما انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ "داعش" کے عسکریت پسندوں کی طرف سے امریکی صحافی کو ہلاک کرنے کے دعوے پر مبنی وڈیو کی حقیقت سے متعلق تصدیق کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وائٹ ہاوس میں قومی سلامتی کونسل کی ترجمان کیٹلن ہائیڈن کا کہنا تھا کہ "اگر یہ وڈیو اصلی ہے، تو ہمیں معصوم امریکی صحافی کے وحشیانہ قتل پر شدید افسوس ہے اور ہم ان کے خاندان اور دوستوں سے دلی تعزیت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی انٹیلی جنس وڈیو کی تصدیق کرنے کے لیے تیزی سے کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ داعش کی جانب سے انٹرنیٹ پر جاری اس ویڈیو میں شدت پسندوں کو ایک شخص کا سر قلم کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ 

شدت پسندوں کے مطابق ویڈیو میں دکھایا جانے والا شخص امریکی صحافی جیمز رائٹ فولی ہے جو شام کی خانہ جنگی کی رپورٹنگ کے دوران نومبر 2012ء میں لاپتہ ہوگیا تھا۔ "یو ٹیوب" پر جاری کی جانے والی ویڈیو کا عنوان "(ریاستِ اسلامیہ کی جانب سے) امریکہ کے لیے ایک پیغام" ہے، جس میں دکھایا جانے والا شخص اپنے گھٹنوں پر جھکا ہوا ہے اور شدت پسند اس کا سر قلم کر رہے ہیں۔ تاہم اس ویڈیو کے حقیقی ہونے اور اس میں موجود شخص کے جیمز رائٹ فولی ہونے کی تاحال تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔ داعش کی بڑھتی ہوئی بربریت کے خلاف اسلامی ملکوں سمیت پوری دنیا میں خاصی بے چینی پائی جا رہی ہے۔ عراق میں شیعہ، اہلسنت اور کردوں کے خلاف داعش کی خونریزی کے خلاف کرد فوج الیش المرکہ میں موجود خواتین نے داعش کے خلاف لڑنے کی اجازت طلب کی ہے۔
 
داعش کے عسکریت پسندوں نے عراق اور شام کی سرحدوں سے باہر تک خوفناک انتقام کو پھیلانا شروع کر رکھا ہے، جس سے کرد فوج الہیش المرکہ میں موجود خواتین داعش کی سرگرمیوں کی وجہ سے پریشان ہیں اور انہوں نے داعش سے لڑنے کی اجازت طلب کی ہے۔ یہ خواتین اپنے کمانڈروں سے کہہ رہی ہیں کہ انہیں انتہا پسندوں کے مقابلے کے لئے محاذ کے خط اول پر بھیجا جائے۔ کرد امور کے ماہر امریکی دانشور ڈاکٹر جوزف کے مطابق کرد فوج میں ان خواتین کی موجودگی اس امر کی تصدیق ہے کہ کرد معاشرے میں خواتین کو بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ کرد مرد اور خواتین کم ہی فوج میں خدمات سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک کرد فوجی خاتون نے کہا میں اب نہ صرف شادی شدہ ہوں بلکہ ایک بچی کی ماں ہوں لیکن اس کے باوجود انتہا پسندوں کے خلاف لڑنے کیلئے میدان میں آئی ہوں کیونکہ یہ ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ شائما خلیل نامی ایک اور کرد فوجی خاتون نے کہا کہ داعش کے خلاف لڑنے کی ایک وجہ اپنے ملک کا دفاع اور دوسری وجہ خواتین کا داعش سے تحفظ کرنا ہے۔ دوسری جانب نوری المالکی دور میں حکومت سے الگ ہونیوالے کرد وزراء بھی دوبارہ حکومت میں شامل ہوگئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 405767
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش