0
Sunday 24 Aug 2014 18:28

ایف بی آر 3 سال سے ٹیکس وصولیوں کا غلط ڈیٹا دے رہا ہے، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل

ایف بی آر 3 سال سے ٹیکس وصولیوں کا غلط ڈیٹا دے رہا ہے، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل
اسلام ٹائمز۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی طرف سے ٹیکس وصولیوں کے اہداف حاصل کرنے کے لیے گزشتہ 3 سال سے ٹیکس وصولیوں کے غلط اعدادوشمار پیش کرنے کا انکشاف ہوا ہے، جس کے خلاف وزیراعظم کو لیٹر لکھ دیا گیا ہے۔ یہ انکشاف ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی طرف سے وزیراعظم اور نیب کو لکھے جانے والے لیٹر میں کیا گیا ہے۔ اس دستاویز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس وصولیوں کے اہداف حاصل کرنے کے لیے گزشتہ 3 سال سے ریونیو کلیکشن بڑھانے کی غرض سے نیشنل بینک آف پاکستان اور اسٹیٹ بینک کی مبینہ باہمی ملی بھگت سے نیشنل بینک آف پاکستان کے اربوں روپے کے ریفنڈ روک رکھے ہیں، اورریفنڈز کو ریونیو بڑھانے کے ذریعے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ ایف بی آر کی طرف سے نیشنل بینک آف پاکستان کے ساتھ ریفنڈز کی اس رقم کو بطور قرضہ تصور کیا جاتا ہے۔

دستاویز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ قرضے کے طور پر اس روکے جانے والے ریفنڈ کی رقم پر زرتلافی کے طور پر سال 2011 سے لے کر 2013 تک 3 سال کے دوران فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی طرف سے نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی) کو 16 ارب روپے ادا کیے جا چکے ہیں۔ دستاویز میں لگائے جانے والے الزامات میں کہا گیا ہے کہ ڈی جی ایل ٹی یو کراچی کی طرف سے سال 2011 اور سال 2012 کے دوران نیشنل بینک آف پاکستان کو ریفنڈ جاری نہیں کیے اور روکے جانے والے ان ریفنڈزکو خودساختہ طور پر ریونیو کلیکشن بڑھانے کے لیے استعمال کیا گیا۔

دستاویز میں بتایا گیا کہ روکے جانے والے ریفنڈز کی اس رقم کو ایف بی آر کی طرف سے نیشنل بینک آف پاکستان سے حاصل کردہ قرضہ ظاہر کر کے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا جا رہا ہے کیونکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی طرف سے زرتلافی کے طور پر نیشنل بینک آف پاکستان کو اس قرضے پر 18 فیصد کے حساب سے مارک اپ ادا کا جا رہا ہے، جو بہت زیادہ ہے۔ وزیراعظم کو بھجوائے جانے والے لیٹر میں کہا گیا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) قرضہ حاصل کرنے والا ڈپارٹمنٹ نہیں ہے اور ایف بی آر کی طرف سے بہت زیادہ کمرشل شرح سود پر اس قسم کا قرضہ لینا غیر قانونی اقدام ہے۔

لیٹر میں کہا گیا کہ اگر ایف بی آر کو قرضے کی ضرورت تھی تو یہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ذمے داری تھی کہ وہ ایف بی آر کے لیے قرض کا انتظام کرتا اور اس پر سود ایف بی آر کی طرف سے لیے گئے قرض کی شرح سے بھی نصف پر ہوتا۔ لیٹر میں انکشاف کیا گیا کہ گزشتہ 3 سال کے دوران نیشنل بینک آف پاکستان کے ریفنڈز 25 ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں اور گزشتہ 3 سال کے دوران ایف بی آر کی طرف سے پیش کی جانے والی ٹیکس وصولیوں کے غلط اعدادوشمار کی بڑی وجہ بھی یہی ریفنڈز ہیں جس کی وجہ سے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے سامنے فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور پاکستان کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔ لیٹر میں انکشاف کیا گیا کہ اسٹیٹ بینک کی طرف سے اس غیر قانونی کام پر گزشتہ 3 سال کے دوران کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان اس معاملے پر گزشتہ 3 سال سے مسلسل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے نیشنل بینک آف پاکستان کے بارے میں اپنی گزشتہ 3 سال کی آڈٹ رپورٹس میں اس کا ذکر تک نہیں کیا گیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 406460
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش