0
Thursday 11 Sep 2014 08:48

سزائے موت پر عملدرآمد نہ کرنیکا حکومتی اقدام کالعدم قرار، ایکشن ہوگا۔؟

سزائے موت پر عملدرآمد نہ کرنیکا حکومتی اقدام کالعدم قرار، ایکشن ہوگا۔؟
رپورٹ: ایس اے زیدی

پاکستان میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سزائے موت کا قانون تو موجود ہے، تاہم ماسوائے مذہبی حوالے سے تنگ نظری یا پھر سیاسی بغض کے، اس پر عملدآمد بہت کم دیکھنے میں آیا ہے، شائد یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں مختلف قسم کے جرائم کی شرح ہر ماہ بڑھتی ہوئی ہی نظر آتی ہے، جبکہ انسداد دہشتگردی ایکٹ ہونے کے باوجود دہشتگرد محفوظ ہیں، انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی ’’انسانی حقوق‘‘ کے نام پر سزائے موت کے قانون کو کافی متنازعہ بنایا، جبکہ پاکستان میں عرصہ دراز سے سزائے موت پر عملدرآمد پر حکومت کی جانب سے عمل نہیں ہو رہا تھا، تاہم گذشتہ دنوں راولپنڈی کی ایک سیشن عدالت نے اپنے فیصلہ میں حکومت کی جانب سے سزائے موت پر عملدرآمد نہ ہونے کے اقدام کو کالعدم قرار دیا ہے، دیکھا جائے تو کسی ماتحت عدالت کی جانب سے ایک قسم کا فیصلہ آنا خاصی اہمیت رکھتا ہے، تاہم اس عدالتی حکم کو پاکستانی میڈیا میں کوئی خاص کوریج نہ مل سکی۔

واضح رہے کہ ملک بھر میں گذشتہ 6 سال 2 ماہ سے سزائے موت کے قیدیوں کو سنائی گئی پھانسی کی سزاوں پر عملدرآمد نہیں ہو رہا تھا، اخباری رپورٹ کے مطابق تین روز قبل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راولپنڈی نے تھانہ واہ کینٹ کے مشہور مقدمہ قتل کے سزائے موت کے قیدی شعیب سرور ولد غلام سرور کے باقاعدہ ڈیتھ وارنٹ جاری کرتے ہوئے سپرنٹنڈنٹ جیل اڈیالہ کو حکم دیا کہ مجرم شعیب سرور کو 18 ستمبر کو پھانسی دے کر عدالت میں رپورٹ پیش کی جائے، ملزم شعیب سرور نے 21 جنوری 1996ء کو اویس نواز نامی شخص کو بیدردی کے ساتھ قتل کر دیا تھا۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راولپنڈی نے ملزم کو جرم ثابت ہونے پر 22 جولائی 1998ء کو سزائے موت سنائی تھی، ہائیکورٹ راولپنڈی کے ڈویژن بنچ نے 2 جولائی 2003ء کو ملزم کی اپیل مسترد کرتے ہوئے یہ سزا برقرار رکھی۔

سپریم کورٹ نے بھی مذکورہ ملزم کی اپیل 3 اپریل 2006ء کو خارج کر دی تھی، اس وقت کے صدر پر ویز مشریف نے بھی رحم کی اپیل خارج کر دی تھی، مقتول کے بھائی جمشید نواز نے حکومت کی طرف سے سزائے موت کے قیدیوں کو عدالتی حکم کے باوجود پھانسی نہ دینے کے اقدام کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا، جس پر ہائیکورٹ نے عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے پر سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو پھانسی کی سزا پر فوری عملدرآمد کرنے کا حکم دیا تھا اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راولپنڈی نے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے مجرم کے بلیک وارنٹ جاری کر دیئے ہیں۔ مجرم کو آئندہ ہفتے ہری پور سے اڈیالہ جیل لایا جائے گا اور 17 ستمبر کو رشتے داروں سے آخری ملاقات کرائی جائے گی۔

مجرم کے رشتے داروں نے پھانسی کی سزا پر عملدرآمد رکوانے کے لئے ایوان صدر سے رابطے شروع کر دیئے ہیں اور خون بہا ادا کرنے کے لئے مقتول کے رشتے داروں سے بھی رابطہ کے لیے جرگہ تشکیل دیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت ملک بھر کی جیلوں میں ایک ہزار سے زائد ملزم ڈیتھ سیلوں میں قید ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا راولپنڈی کی اس سیشن عدالت کے اس حکم پر عملدرآمد پورے ملک میں کیا جائے گا، یا صرف یہ حکم ایک ضلع تک محدود ہوگا۔؟ اگر حکومت ایک مجرم کو پھانسی دینے کے فیصلہ پر عمل کرتی ہے تو باقی مجرموں کو تحفظ کیسے دیا جائے گا۔؟ یقیناً اس موضوع پر ایک نئی قانونی بحث چھڑ سکتی ہے، تاہم ملکی حالات اور انصاف کا تقاضا ہے کہ بے گناہ عوام کو قتل کرنے اور دہشتگردی کے واقعات میں ملوث مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
خبر کا کوڈ : 408922
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش