0
Monday 15 Sep 2014 22:37

بلوچستان میں کوئی فرقہ واریت نہیں، زائرین کی بسوں پر ہمارے ہی "دوست" حملہ آور ہوتے ہیں، عبدالمتین اخونزادہ

بلوچستان میں کوئی فرقہ واریت نہیں، زائرین کی بسوں پر ہمارے ہی "دوست" حملہ آور ہوتے ہیں، عبدالمتین اخونزادہ
اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی بلوچستان کے صدر عبدالمتین اخونزادہ نے کہا ہے کہ سابق ادوار میں بلوچستان کی جانب توجہ دی جاتی تو آج صوبہ میں امن ہوتا۔ سابق دو ادوار حکومت میں صوبہ کیلئے کوئی سنجیدہ اقدام تک نہیں اٹھایا گیا۔ صحت و تعلیم تک میسر نہیں۔ بنیادی حقوق سے محروم عام شخص بغاوت پر اترا ہے۔ قبائلی سرداروں کو بلوچستان کی جوان اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار سمجھتا ہے۔ صوبہ میں کوئی فرقہ واریت نہیں، زائرین کی بسوں پر ہمارے ہی "دوست" حملہ آور ہوتے ہیں۔ انہی "دوستوں" سے بلوچستان کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ بلوچستان کو ترقی کیلئے 500 ارب کی اشد ضرورت ہے۔ افسوس آج تک سوئی گیس کی رائلٹی تک صحیح معنوں میں فراہم نہیں کی گئی۔ آغاز حقوق بلوچستان کے تحت ایک بلوچ کو بھی وفاقی ملازمت نہیں دی گئی۔ جام یوسف، رئیسانی کی حکومتوں کی کارکردگی انتہائی ناقص تھی، ڈاکٹر مالک درست جارہے ہیں۔ اسلام آباد دھرنا کے باعث بلوچستان و کراچی کے اہم مسائل پس منظر میں چلے گئے۔ 6 اکتوبر کو بلوچستان کے مسئلہ پر قومی کانفرنس اسلام آباد میں ہوگی۔ بلوچستان کا بنیادی مسئلہ وسیع جغرافیہ ہے۔ ملک کا 44 فیصد رقبہ پر صرف 10 ملین آبادی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان یکساں توجہ کا طالب ہے۔ اگر سابق ادوار میں پنجاب اور سندھ کی طرح بلوچستان پر بھی توجہ دی جاتی تو یہاں کے حالات اس نہج تک نہ پہنچتے۔ لوگوں کو بنیادی سہولیات تک میسر نہیں ہیں۔ 73ء کے آئین کے مساوی حقوق دیئے گئے لیکن آج تک ان پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ اسی کے باعث کچھ لوگ بغاوت پر مجبور ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک بنیادی سہولیات اور ضروریات نہیں فراہم کی جاتیں اس وقت تک بلوچ جوان کا اعتماد حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

دیگر ذرائع کے مطابق جے یو آئی کے صدر عبدالمتین اخونزادہ نے کہا ہے کہ بلوچستان سونا، معدنیات سے مالا مال صوبہ ہے۔ سب سے پہلے قدرتی گیس کے ذخائر یہیں سے دریافت ہوئے لیکن افسوس آج تک سوئی گیس کی صحیح رائلٹی صوبہ کو نہیں دی گئی۔ صحت و تعلیم کے شعبوں میں بلوچستان دیگر صوبوں سے کوسوں دور ہے۔ انہوں نے کہا کہ امیر جماعت اسلامی نے منتخب ہونے کے فوراً بعد بلوچستان کے تمام حصوں کا دورہ کیا ہے۔ اسلام آباد میں جاری دھرنے سے فارغ ہوکر بلوچستان کی جانب توجہ دینگے۔ اسی سلسلے میں 6 اکتوبر کو اسلام آباد میں بلوچستان بارے قومی کانفرنس بلارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاق نے صوبہ کو تو نظر انداز کیا ہی ہے لیکن صوبائی حکومتوں نے بھی کوئی قابل قدر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ سابق دو ادوار جام یوسف اور رئیسانی کی حکومتیں انتہائی خراب کارکردگی کی حامل تھیں۔ البتہ ڈاکٹر مالک کی حکومت سے کافی حد تک مطمئن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آغاز حقوق بلوچستان کو صوبہ میں منفی انداز سے دیکھا گیا کہ اگر آج اتنے برسوں بعد بلوچستان کو حقوق دینے کا آغاز ہو رہا ہے تو آ ج سے پہلے کیا ہوتا رہا ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ ابھی تک وفاقی حکومت کے ذمہ بلوچستان کے 6 ارب روپے واجب الادا ہیں۔ آغاز حقوق بلوچستان کے تحت سابق حکومت نے 10 سالوں کی قسطوں میں 120 ارب روپے دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اسی منصوبے کے تحت 6 ہزار لوگوں کو محکمہ تعلیم میں ضرور بھرتی کیا گیا لیکن وفاق میں ایک آسامی بلوچستان کے جوانوں سے پر نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ایسی آبادیوں کی کثیر تعداد مل جاتی ہے۔ جہاں صحت و تعلیم کا دور دور تک نشان نہیں۔

جے یو آئی بلوچستان کے صدر کا کہنا تھا کہ صوبے کو دیگر صوبوں کے برابر لانے کیلئے کم از کم 500 ارب روپے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ایک اور سوال پر کہا کہ آج تک کسی بڑی قبائلی شخصیت نے پاکستان کا جھنڈا نہیں جلایا بلکہ بلوچستان کا جوان اس وقت بغاوت کررہا ہے اور وہ قبائلی سرداروں کو اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار سمجھتے ہیں۔ آج تک جھنڈا جلانے جیسے واقعات بنیادی حقوق نہ ملنے والے جوانوں کی طرف سے سامنے آئے ہیں اور بلوچستان میں مزاحمت بھی عام آدمی کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجگور، کیچ، آواران، گوادر، خضدار وغیرہ میں سرداری نظام نہیں ہے۔ انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ بلوچستان میں فرقہ واریت نہیں ہے۔ تمام لوگ بین المسالک ہم آہنگی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ البتہ کچھ دلدوز واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔ ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ہزارہ قبیلہ یا زائرین کی بسوں پر حملے کوئی اور نہیں ہمارے ’’دوست‘‘ کر رہے ہیں۔ بلوچستان کو اپنے انہی قریبی ’’دوستوں‘‘ سے خطرہ ہے۔ انہوں نے دھرنا کے حوالے سے سوال پر کہا کہ آئین کے دائرے میں مطالبات منظور کئے جائیں اور اسلام آباد کے مظاہرین بھی ملک کی صورتحال پر سنجیدگی سے غور کریں کیونکہ دھرنا کے باعث بلوچستان، کراچی اور سیلاب کے مسائل پس منظر میں چلے گئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 409854
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش