QR CodeQR Code

انتظامی یونٹس یا انتظامی کاکردگی

25 Sep 2014 19:21

اسلام ٹائمز: پاکستان میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کا کہنا ہے کہ ملک میں اس وقت دھرنوں کا راج ہے، دھرنوں کے پارٹ ون کا گیم ختم ہو چکا ہے، نئے انتظامی یونٹس کا معاملہ اٹھانا گیم کا پارٹ ٹو ہے، الطاف حسین قابل احترام ہیں، ان سے التجا ہے ایسی نازک صورتحال میں اس حساس مسئلے کو نہ چھیڑا جائے، جمہوریت کی بنیاد بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں، الیکشن کمیشن کو چاہیئے کہ جلد سے جلد حلقہ بندیاں کرائے تاکہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکے۔


رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے اپنے ایک بیان میں مطالبہ کیا ہے کہ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے لئے ملک میں کم از کم 20 نئے صوبے بنائے جائیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سرپرستِ اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ ایک اخبار نویس سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا سندھ ایک تاریخی اکائی ہے، اس کی تقسیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انقلاب مارچ اور دھرنوں کے دوران پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری اپنے اصلاحاتی ایجنڈے میں پورے زور کے ساتھ یہ مطالبہ دہرا چکے ہیں کہ پاکستان میں مزید صوبے بنائے جائیں۔ ان کا موقف ہے کہ پنجاب جیسے بڑے صوبے جس کی آبادی دس کروڑ تک ہے، اس میں کیسے ممکن ہے کہ اتنے بڑے صوبے میں تمام تر آبادی کا خیال رکھنے اور انکی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے ایک ہی وزیراعلیٰ کافی ہوں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی طرح ہزارہ اور سرائیکی صوبوں کے قیام کا مطالبہ کرنے والے پارلیمنٹ سے باہر ہیں۔ ماضی میں حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے نئے صوبوں کا مطالبہ کرنے والوں کیخلاف یہ رویہ رہا کہ ایسے مطالبات ملک دشمن قوتوں کی جانب سے پاکستان کے وفاق کو نقصان پہنچانے کی سازشوں کا حصہ ہیں۔ اے این پی ہزارہ صوبے اور پیپلز پارٹی سندھ کی انتظامی تقسیم کے مخالف ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی اپنی وزارت عظمٰی کے دور میں سرائیکی صوبے کی مکمل حمایت کا اظہار کر چکے ہیں۔

حال ہی میں جب ایوان میں ایم کیو ایم کی جانب سے ایک بار پھر نئے انتظامی یونٹس کی بابت مطالبے کو دہرایا گیا تو سندھ سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے رہنماوں نے کہا کہ ایم کیو ایم سمیت جو جماعتیں نئے انتظامی یونٹس کے قیام کا مطالبہ کر رہی ہیں، ان کو چاہیئے کہ وہ اس مسئلے کو اسمبلی کے فورم پر لے جائیں تاکہ تمام جماعتوں کا نقطہ نظر سامنے آسکے جب کہ ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ نئے انتظامی یونٹ صرف سندھ میں نہیں پورے پاکستان میں بننے چاہیئیں، ہم سندھ کی تقسیم نہیں چاہتے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر سعید غنی نے کہا ہے کہ صوبوں کا مطالبہ ایم کیو ایم کا حق ہے لیکن اس کی مخالفت کرنا پیپلز پارٹی کا اپنا حق ہے، ہم سب کی رائے کا احترام کرتے ہیں۔ پارٹی کے رہنما سعید غنی کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی کوشش ہوتی ہے کہ سندھ میں ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر فیصلے کیے جائیں، ملک بہت سے مسائل کا شکار ہے، متنازع مسائل کو اس وقت نہ چھیڑا جائے، ایم کیو ایم ذمے دار جماعت ہے، اسی لیے ہم امید کرتے ہیں کہ ایسے ایشوز پر سیاست نہ کی جائے، جس سے رنجش یا اختلافات پیدا ہوں، سندھ میں ضلع یا ڈویژن انتظامی یونٹس ہی ہیں، اگر ان کو بااختیار بنانا ہے تو بات چیت کی جا سکتی ہے، اردو بولنے والے کو وزیر اعلٰی بننا چاہیئے، یہ ایم کیو ایم کی جائز بات ہے۔ سعید غنی کا کہنا تھا کہ سندھ میں وزیراعلٰی بننے کا معاملہ نمبر گیم ہوتا ہے، سندھ میں بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کی ذمے دار پیپلز پارٹی کی حکومت نہیں، جب ہم نے حلقہ بندیاں کیں اور بلدیاتی ایکٹ منظور کیا تو اس معاملے پر ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں نے ہمارا ساتھ نہیں دیا، بلدیاتی حلقہ بندیاں سپریم کورٹ میں چیلنج کر دی گئیں اور سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ حلقہ بندیاں الیکشن کمیشن کرے گا، حلقہ بندیوں میں کوئی بددیانتی نہیں کی گئی، حلقہ بندی میں آبادی، رقبے اور دیگر معاملات کو سامنے رکھنا پڑتا ہے، سندھ میں بلدیاتی انتخابات میں کیلیے الیکشن کمیشن کو کہا گیا ہے کہ وہ جلد سے جلد حلقہ بندیاں کریں، معاملات طے ہوتے ہی جلد از جلد سندھ میں بلدیاتی انتخابات کرا دیئے جائیں گے۔

جبکہ ڈاکٹر طاہر القادری کی طرح ایم کیو ایم کے رہنما محمد حسین کہتے ہیں کہ نئے انتظامی یونٹس کا قیام صرف سندھ کا مسئلہ نہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ملک بھر میں جہاں ضروری ہو نئے انتظامی یونٹ بنائے جائیں، بعض لوگ ہمارے اس مطالبے کو اس طرح لے رہے ہیں جیسے ایم کیو ایم سندھ کی تقسیم چاہتی ہے، ہم ہر فورم پر واضح طور پر ایم کیو ایم سندھ کی تقسیم نہیں چاہتی، ہم چاہتے ہیں کہ آبادی کی بنیاد پر سندھ سمیت پورے ملک میں نئے انتظامی یونٹس بنائے جائیں، ایم کیو ایم جب ضروری سمجھے گی نئے انتظامی یونٹس کا معاملہ پارلیمنٹ اور سندھ اسمبلی میں اٹھایا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ کوٹہ سسٹم سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں کی عوام میں تفریق پیدا کر رہا ہے، اس کو ختم ہونا چاہیئے کیونکہ اس کی وجہ سے صوبہ عملی طور پر 2 حصوں میں تقسیم ہے، اس وقت افسران کے ذریعے بلدیاتی نظام چلایا جا رہا ہے، بلدیاتی نظام عوامی نمائندے چلاتے ہیں، سندھ میں فوری طور پر بلدیاتی انتخابات ہونے چاہئیں، بلدیاتی نظام نہ ہونے سے عوام بدترین مسائل کا شکار ہیں اور بےحد مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ صوبے بھر میں کہیں ایڈمنسٹریٹر ہیں، کہیں کمشنر و ڈپٹی کمشنر اور کہیں معاملات کو سرکاری افسران کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔

ایم کیو ایم کا یہ بھی کہنا ہے کہ سپریم کورٹ جب ہر معاملے پر سوموٹو نوٹس لیتی ہے تو اس معاملے پر بھی عدالت عظمٰی کو ازخود نوٹس لینا چاہیئے، یہ تجویز بھی موجود ہے کہ ابھی موجودہ حلقہ بندیوں کے تحت ہی بلدیاتی الیکشن کرا دیئے جائیں اور پھر آہستہ آہستہ نئی مردم شماری اور حلقہ بندیاں کی جائیں، اس کے بعد آئندہ بلدیاتی الیکشن نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے تحت کرائے جائیں۔ جماعت اسلامی کا نئے یونٹس کے قیام کے متعلق یہ کہنا ہے کہ اگر پاکستان کے آئین میں گنجائش موجود ہے تو نئے انتظامی یونٹس کے قیام پر متعلقہ فورم پر بات چیت کی جائے۔ البتہ اسوقت ایم کیو ایم کی جانب سے اس مسئلے کو اٹھائے جانے کے متعلق جماعت اسلامی اس کی مخالفت کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ ایم کیو ایم کی جانب سے نئے انتظامی یونٹس کا معاملہ اٹھانا بے وقت مسئلہ چھیڑنے کے مترادف ہے، ملک میں افواہیں گرم ہیں کہ مارشل لاء آ رہا ہے اس وقت متنازع مسائل پر سیاست نہیں ہونی چاہیئے، پرویز مشرف کا بلدیاتی نظام اچھا ہے، اس میں ترامیم کر کے اس نظام کو رائج رکھا جا سکتا تھا لیکن سیاسی حکومتوں نے اپنے مفادات کی خاطر اس نظام کو ختم کر دیا۔

پاکستان تحریک انصاف ملک میں نئے انتظامی یونٹس کے قیام کی حمایت کرتی ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنماوں کا کہنا ہے کہ ہماری جماعت خیبرپختونخوا میں بلدیاتی الیکشن کرانے کو تیار ہے لیکن ہماری ترجیح ہے کہ وہاں الیکشن بائیومیٹرک سسٹم کے ذریعے ہوں، ہم موجودہ سسٹم کے ذریعے بلدیاتی الیکشن نہیں چاہتے۔ پاکستان میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کا کہنا ہے کہ ملک میں اس وقت دھرنوں کا راج ہے، دھرنوں کے پارٹ ون کا گیم ختم ہو چکا ہے، نئے انتظامی یونٹس کا معاملہ اٹھانا گیم کا پارٹ ٹو ہے، الطاف حسین قابل احترام ہیں، ان سے التجا ہے ایسی نازک صورتحال میں اس حساس مسئلے کو نہ چھیڑا جائے، جمہوریت کی بنیاد بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں، الیکشن کمیشن کو چاہیئے کہ جلد سے جلد حلقہ بندیاں کرائے تاکہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکے۔

پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور رہنماوں کا موقف مختلف ہے لیکن اصولی طور پر صوبوں کی ازسرنو تشکیل کوئی شجرِممنوعہ نہیں۔ بدلتے ہوئے حالات کے تحت عوام آئینی طریقِ کار کے مطابق جب چاہیں ایسا کر سکتے ہیں، لیکن اس سلسلہ میں زمینی حقائق کو ملحوظ رکھنا بھی لازم ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت کی مثال اس مسئلے کو سمجھنے میں معاون ہو سکتی ہے جہاں بعض صوبوں کو تقسیم بھی کیا گیا جبکہ اُترپردیش جیسے بڑے صوبے کو جس کی آبادی 20 کروڑ سے زیادہ ہے، ازسرنو تقسیم کرنے کی ضرورت کبھی محسوس نہیں کی گئی۔ کسی طرف سے یہ اعتراض بھی نہیں اٹھایا گیا کہ اس کا وجود اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کرنے میں مانع ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ملک میں گورننس کی صورت حال قابل رشک نہیں لیکن صوبوں کی موجود ہیئت اس کا سبب نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بدانتظامی اور "بُری حکمرانی" کے حقیقی عوامل پر توجہ دی جائے۔ ان اسباب کا سراغ لگایا جائے جو اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی میں حائل ہیں۔ اس کا سب سے بڑا سبب تو بدیہی طور پر یہی ہے کہ بلدیاتی نظام کو مختلف سیاسی مصلحتوں کے تحت جڑ پکڑنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ اس کی ذمہ داری منتخب سول حکومتوں اور فوجی آمروں، دونوں پر عائد ہوتی ہے۔ دونوں نے اپنی اپنی سیاسی مصلحتوں کے تحت اول تو انہیں قائم ہی نہ ہونے دیا اور اگر قائم کیا بھی تو فوجی آمریتوں کے دور میں اس کا بنیادی مقصد یہ رہا کہ انہیں معروف جمہوری اداروں کا متبادل بنا کر پیش کیا جائے۔ اندریں حالات انتظامیہ کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور اختیارات کو نچلی سطح تک لے جانے کا آسان اور یقینی راستہ اس کے سوا کوئی دوسرا نہیں کہ بلدیاتی نظام جلد از جلد قائم کیا جائے اور ان اداروں سے عوام دوست قیادت کو ابھرنے کا موقع دیا جائے۔


خبر کا کوڈ: 411572

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/news/411572/انتظامی-یونٹس-یا-کاکردگی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org