0
Thursday 25 Sep 2014 09:05
ایران کی توانائی ضروریات پوری کرسکتے ہیں

اقتصادی پابندیوں سے بچنے کیلئے ایران کو اپنے ایٹمی پروگرام کو لگام دینا ہوگی، باراک اوباما

پوری دنیا اور خاص طور پر مسلمانوں کو داعش کے نظریئے کو سختی سے مسترد کرنا ہوگا
اقتصادی پابندیوں سے بچنے کیلئے ایران کو اپنے ایٹمی پروگرام کو لگام دینا ہوگی، باراک اوباما
اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ امریکہ ایران کی توانائی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔ ایران کو اپنا جوہری پروگرام پرُامن مقاصد کے لئے بنانے کا یقین دلانا ہوگا۔ اس حوالے سے اُسے یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہئے، اقتصادی پابندیوں سے بچنے کے لئے ایران کو اپنے ایٹمی پروگرام کو لگام دینا ہوگی۔ ایران ایٹمی مسئلے کے سفارتی حل کے لئے آگے بڑھے۔ چین کا نام لئے بغیر انہوں نے کہا کہ ایشیا پیسفک ممالک اصولوں کی پاسداری کریں اور علاقائی تنازعات پُرامن طریقے سے حل کریں۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ امریکہ نہ تو اسلام کے خلاف حالت جنگ میں ہے نہ ہی کبھی وہ ایسا کرے گا، اسلام امن کا درس دیتا ہے، دنیا کو مل کر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہوگا، موت کے سوداگروں کو انجام تک پہنچائیں گے، پوری دنیا اور خاص طور پر مسلمانوں کو داعش کے نظریئے کو سختی سے مسترد کرنا ہوگا، عالمی برداری داعش کے خلاف مشترکہ مشن میں شریک ہو، داعش، القاعدہ یا بوکو حرام کے نظریئے کو اگر مسلسل سامنے لایا جاتا رہے تو یہ اپنی موت مرجائیگا، عرب اور مسلم ممالک اپنے عوام خاص طور پر نوجوانوں میں موجود صلاحیتوں پر توجہ مرکوز کریں، مسلم نوجوان تعلیم، تعمیر اور انسانی جانوں کی قدر کا درس دینے والی عظیم روایات رکھتے ہیں اس راستے سے ہٹنے کا کہنے والے ان روایات سے انحراف کر رہے ہیں۔ امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کو ایبولاوائرس روکنے کے لئے وسیع تر کوششیں کرنے کی ضرورت ہے، امریکہ پرامن طاقت ہے اور رہے گا، روس نے یوکرائن سے امن معاہدہ اپنایا تو امریکی پابندیاں ختم کر دیں گے، امریکہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کی کوششیں ترک نہیں کرے گا۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر باراک اوباما کا کہنا تھا کہ یوکرائن پر روس کی جارحیت کو روکنا ہوگا، روسی جارحیت کسی صورت قبول نہیں، امریکہ نے خوف پر امید کو ترجیح دی ہے، شام اور عراق میں دہشت گردوں کی سفاکانہ کارروائیوں نے ہمیں اقدامات کرنے پر مجبور کیا، ہم مستقبل کو اپنی رسائی سے باہر نہیں دیکھتے بلکہ اسے بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم امن اور جنگ کے درمیان پھنس گئے، دنیا کے لوگ اپنے مسائل امن سے حل کرنا چاہتے ہیں، لیکن داعش کے خاتمے کیلئے موثر کارروائی کرنا ہوگی کیونکہ اس کا خاتمہ ضروری ہے، پوری دنیا کو داعش کے خلاف متحد ہونا ہوگا۔ دنیا کو مل کر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہوگا، موت کے سوداگروں کو انجام تک پہنچائیں گے، پوری دنیا اور خاص طور پر مسلمانوں کو داعش کے نظریئے کو سختی سے مسترد کرنا ہوگا، عالمی برداری داعش کے خلاف مشترکہ مشن میں شریک ہو، ایران ایٹمی مسئلے کے سفارتی حل کے لئے آگے بڑھے، دنیا کو ایبولا وائرس کو روکنے کے لئے وسیع تر کوششیں کرنے کی ضرورت ہے، امریکہ پرامن طاقت ہے اور رہے گا، عرب اور اسلامی ممالک کو ترقی کرنی چاہیئے مسلمانوں کے باہمی اختلافات کی وجہ سے انسانوں کو تکلیف پہنچتی ہے، انتہا پسندی نے مسلم دنیا کے متعدد حصوں کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔
 
میں نے یہ واضح کیا ہے کہ امریکہ اپنی پوری خارجہ پالیسی کو دہشت گردی کے ردعمل کی بنیاد پر تشکیل نہیں دے گا، ہم نے اس کی بجائے القاعدہ اور اس کے منسلک قوتوں کے خلاف بھرپور مہم شروع کی، ان کے رہنمائوں کو نشانہ بنایا اور محفوظ پناہ گاہوں میں چھپنے کی اجازت نہیں دی، اگر ہم امریکہ اور اسلام کا ذکر کریں تو یہاں کوئی ہم اور وہ نہیں، یہاں صرف ہم ہیں کیونکہ کئی ملین مسلمان امریکی ہمارے ملک کا حصہ ہیں، ایسے نام نہاد مذہبی رہنمائوں سے اب کوئی رعایت نہیں برتی جانی چاہئے جو معصوم لوگوں کو صرف یہودی، عیسائی یا مسلمان ہونے کی بناء پر نقصان پہنچانے کی بات کرتے ہیں، داعش، القاعدہ  یا بوکوحرام کے نظریئے کو اگر مسلسل سامنے لایا جاتا رہے تو یہ اپنی موت مرجائیگا، مسلم معاشروں میں امن کے فروغ کے نئے فورم کو دیکھیں، برطانیہ کے نوجوان مسلمانوں نے دہشت گردوں کے پراپیگنڈا کے جواب میں ’’میرے نام پر نہیں‘‘ کی مہم چلائی اور کہا کہ داعش کسی جھوٹے مذہب اسلام کے پیچھے چھپ رہی ہے، اسی طرح وسطی افریقی جمہوریہ میں عیسائی یا مسلمان رہنماء تشدد کو مسترد کرنے کے لیے متحد ہوگئے ہیں،  مسلم طبقات کے درمیان تشدد کی وجہ سے انسانوں کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ باراک اوباما کا مزید کہنا تھا کہ عرب اور مسلم ممالک اپنے عوام خاص طور پر نوجوانوں میں موجود صلاحیتوں پر توجہ مرکوز کریں، میں مسلم دنیا کے نوجوانوں سے براہ راست مخاطب ہو رہا ہوں، آپ لوگ عظیم روایات رکھتے ہیں، جو تعلیم کی حامی ہیں جہالت کے نہیں، تعمیر کا درس دیتی ہیں تباہی کا نہیں، انسانی جان کی قدر کی حامل ہیں قتل کی نہیں، آپ کو جو بھی اس راستے سے ہٹنے کا کہتے ہیں وہ روایات سے انحراف کر رہے ہیں۔ امریکہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کی کوششیں ترک نہیں کرے گا، مغربی کنارے اور غزہ میں سٹیٹس کو پائیدار نہیں، امریکی فوجی غیر ملکی سرزمین پر قبضہ نہیں کریں گے۔
 
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 24ستمبر کو شروع ہونے والا سالانہ اجلاس یکم اکتوبر تک جاری رہے گا۔ اجلاس میں  140 سے زائد ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت شرکت کر رہے ہیں۔ اجلاس کے دوران اسلامک سٹیٹ کی دہشت گردی، مغربی افریقی ممالک میں پھیلتا ہوا ایبولا وائرس اور ایران کے جوہری پروگرام جیسے موضوعات چھائے رہیں گے۔ جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹراشٹائن مائر کہتے ہیں کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں عالمی سطح پر ایران کی نئی حکومت کے لئے مزید تعاون حاصل کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ان کی کوشش ہوگی کہ وہ اس عالمی اجلاس کے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام مذاہب اور دنیا کے تمام خطوں کو یکجا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اسلامک سٹیٹ سے لاحق خطرات کو بات چیت میں کلیدی اہمیت حاصل رہے گی۔ شٹائن مائر کے مطابق وہ آئی ایس اور مسلم عسکریت پسندی کے خلاف جاری کوششوں کو مزید منظم کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس تناظر میں عراق کے کرد باغیوں کو جرمن اسلحے کی ترسیل کے معاملے پر بھی بحث و مباحثہ ہونے کی امید ہے۔ واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک کی ہیڈ ھرکونلی نے کہا کہ کرد باغیوں کو ہتھیار فراہم کرنے کو برلن حکوت کی اہم ترین خارجہ پالیسی قرار دیا جاسکتا ہے۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے ترجمان نے کہا کہ کیمرون اس بات پر توجہ مرکوز کریں گے کہ اسلامک سٹیٹ کے خلاف فضائی حملوں کے علاوہ اور کیا اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی 26 ستمبر کو جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔
خبر کا کوڈ : 411596
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش